کراچی ہيومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن اور دیگر تنظمیوں کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس منعقد کیا گیا۔
انھوں نے کہاکہ شہریوں کی جبری گم شدگیاں، ہلاکیتں، ملکی آئین، قانون اور بین الاقوامی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ریاستی اداروں کا شہریوں خصوصا بلوچوں کے خلاف جاری غیر آئینی و انسانیت سوز برتاو سنگین بحران کو جنم دے رہا ہے ۔ ریاست کی جانب سے شہریوں سے آزادی رائے، احتجاج اور جمہوری حقوق کو طاقت کے زور پرچھیننے کی روش خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے۔
پریس کانفرنس میں کہاکہ حالیہ دنوں بلوچستان میں ہونے والے الم ناک واقعات خصوصا تربت میں بلوچ نوجوانوں کا ماورائے عدالت بہیمانہ قتل اور اس کے خلاف احتجاجی مارچ کے شرکاء پر اسلام آباد پولیس کا تشدد ،گرفتاریاں، اور رات کی تاریکی میں پولیس کے سخت بہرے کے باوجود نقاب پوشوں افراد کا دھرنے کے کمیپ پر حملہ وار ہونا اس امر کی جانب اشارہ کرتاہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں نے ٹھان رکھی ہے کہ وہ شہریوں کے آئینی وجمہوری حقوق کو پامال کرتے رہیں گے۔
انھوں نے کہاکہ ریاست کے اس غیر جمہوری طرز عمل کے خلاف جب کراچی میں پرامن ریلی کا انعقاد کیا گیا تو مزدور و انسانی حقوق کے کارکنوں جن میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور، ہومن راٹٹس کمیشن آف پاکستان کی مرکزی کونسل کے رکن سعید بلوچ، جئے سندھ محاز کے رہنما الہی بکک بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائز عبد اوہاب بلوچ کے علاوہ 260 دیگر افراد شامل ہیں کے خلاف بغاوت پر اکسانے جیسے سنگین الزام کے تحت من گھرٹ مقدمات قائم کیے گئے ہیں جبکہ مختلف اداروں کے ذریعے سیاسی ، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔ بلوچوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کرنے والے سیاسی و سماجی کارکنوں پر بھی اسی طرح کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں جو کہ قابل مذمت ہے۔ ملک کے باشعور حلقے ریاست کی غیر جمہوری روش ، ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کی پالیسی کے باوجود بلوچ مارچ اور اسلام آباد دھرنے میں بیٹھے شرکاء سے اظہار یکجہتی اور ان کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔
شرکا نے کہاکہ ہم ریاست اور ریاستی اداروں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی اساس جمہوریت اور وفاقی اکائیوں کے اتحاد میں ہی مضمر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آئین اورجمہوری وفاق کے بنیادی اصولوں کو مسلسل پامال کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں شہریوں خصوصا بلوچوں کا جبری غائب کیاجانا، ماورائے عدالت ہلاکتیں ، مسلسل گرفتاریاں اور جھوٹے مقدمات جس کا کھلا ثبوت ہیں ۔ یہ نہایت ہی مایوس کن صورت حال ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں ، منتخب ادارےاور عدالیتں ماورائےآئین و قانون کاروائیوں کو روکنے اور اس کے مرتکب عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے میں نا کام ہو چکے ہیں ۔ آئین اور قانون کا تقاضا ہے کہ تمام ذمہ دار ادارے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے غیر آئینی اقدامات کے مرتکب عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزائیں دیں اور شہریوں کے خلاف جاری لاقانونیت کے سلسلہ کو روکیں ۔
پریس کانفرنس دوران انھوں نے مطالبہ کیاکہ
سیاسی، انسانی حقوق اور مزدور تنظیموں کے رہنماوں سمیت تمام افراد کے خلاف جھوٹے مقدمات ختم کئے جائیں ۔
جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
جبری طور پر غائب کئے گئے تمام سیاسی سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور اس گھناونے جرم کے مرتکب عناصر کو قانون کےمطابق سزا دی جائے ۔
اسلام آباد دھرنے کے دوران گرفتار شرکاء کو رہا کیا جائے۔
اسلام آباد دھرنے کے شرکاء کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔
پریس کانفرنس کے شرکاء میں اسد اقبال بٹ (چیرپرسن ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان)
ڈاکٹر ریاض شیخ (ڈین سوشل سائنسسز اینڈ ایجوکیشن ، ذیبسٹ )
انیس ہارون( چیرپرسن نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف وومن )
معروف قانون دان بیرسٹر صلاح الدین احمد
گل رحمان (نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن ، صدر سندھ)
کرامت علی ( کنوئینر نیشنل لیبر کونسل )
ڈاکٹر اصغر دشتی (چیرپرسن شعبہ بین الاقوامی تعلقات وفاقی اردو یونیورسٹی)
عامر وڑائچ (صدر کراچی بار ایسوسی ایشن )
عبد الخالق زدران (کنوئینر عوامی حقوق تحریک )
کامی سیڈ ( ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ)
عاقب حسین (آلٹرنیٹ)
محب آزاد ( جنرل سیکرٹری سندھ سجاگی فورم)
زہرا خان (جنرل سیکرٹری ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن) شامل تھے۔