بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5258 دن ہوگئے.
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بھارکان سے بی این پی کے عہدیداران شاہنواز کھیتران اور سردار خلیل الرحمان لونی نے اظہاریکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے پوئے کہا کہ نہ جانے کتنے جبری لاپتہ افراد کو تشدد کرکے ان کی لاشوں کو ویرانوں میں دفنا دیا گیا ہے ،جو کہ آج تک منظر عام پر نہ آسکے ہزاروان بلوچ تاحال ریاستی عقوبت خانوں میں بند ہیں اور ہر روز لکھے پڑھے نوجوانوں کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہاکہ اب پچپن ہزار سے بڑھ کر پینسٹھ ہزار 65000 تک پہنچ چکے ہیں ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں گزشتہ دس سالوں سے جنگی صورت حال کے دوران علاقوں میں چھاپے مار کر ہزاروں کی تعداد میں جبری لاپتہ کر دیا گیا ہے ،جن میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
عالمی اداروں سمیت پاکستانی عدلیہ بھی انکی ریاستی عقوبت خانوں میں موجودگی کی تصدیق کر چکی ہے لیکن ابھی تک انہیں بازیاب نہیں کیا گیا۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ان بلوچوں کو جبری اغوا اور شہید کرنے کے لئے فورسز اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے کارندوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان بھر میں جرائم پیشہ گروں کو باقاعدہ منظم کر رکھا ہے اور انہیں پیسے اور ہتھیار فراہم کرکے ان علاقوں میں بلوچوں کو جبری اغوا کرنے ٹارگٹ کلنگ کرنے اور علاقوں میں خوف ہراس پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے جس سے ان تمام علاقوں میں خوف ہراس کا موحول پیدا ہو چکا ہے منشیات سمگلنگ اور بھتہ لینا علاقوں میں ایک قانونی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں لوگ اسلیہ لے کر ایف سی کی سربراہی میں ٹارگٹ کلنگ اور جبری اغوا کی کاروئیاں کرتے ہیں اور خوف پیلا کر کاروبار بند کر دیتے ہیں خضدار کے متعدد بلوچوں کو اب تک ڈیتھ اسکوارڈ کے ہاتھوں شہید کیا جا چکا ہے قدم قدم پر فورسز کے چیک پوسٹ موجود ہیں۔