بلوچ سیاست بلخصوص بی ایس او کو دھڑے بندی اور تقسیم کا شکار بنایا گیا۔ بی ایس او



بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق اراکین مرکزی کمیٹی، مرکزی کابینہ زونل عہدے داران و مختلف زونز کے اراکین کا مشترکہ آنلائن  اجلاس سماجی رابطے کی ویب سائٹ زوم پر  منعقد ہوا۔ اجلاس کا اغاز شہداء کے یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔


 اجلاس میں 5۔6 اکتوبر کے مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں سمیت بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے اثر انداز ہونے اور کونسل سیشن میں ہونے والے تمام اثرات و صورتحال کا بغور جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں عالمی علاقائی سیاسی صورتحال، بلوچ طلباء سیاست کو درپیش مشکلات، تقسیم در تقسیم کے منفی اثرات پر غور کیا گیا۔


 اجلاس کے شرکاء نے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی آئینی احتجاجی پوزیشن، یا تنقیدی سوال کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ بلوچ سیاست بلخصوص بی ایس او کو مزید دھڑے بندی یا تقسیم کا شکار بنایا جائے۔


انیسویں قومی کونسل سیشن میں بی ایس او بطورادارہ متفقہ طور پر فیصلہ کرچکی ہے کہ دھڑہ بندی و تقسیم در تقسیم کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے عہدے سمیت کسی بھی قربانی دینے کے لئے بی ایس او پہل کرے گی۔ ہم اسی فیصلے کے پابند آج بھی باہمی بقاء و سیاسی عمل میں شراکت داری و مشاورتی عمل کے زریعے معاملات کو حل کرنے کے قائل ہیں لیکن حسب روایت عہدوں کی لالچ، من پسند خوشامدی کلمات سننے کی مجبوری، یا سیاسی عمل سے تنقیدی رجحانات کے خاتمے کے غیر سیاسی رجحانات کی وجہ سے بی ایس او کے حالیہ کونسل سیشن کو کرانے کے لئے پارٹی وفد نے شہیدوں کا واسطہ دے کر کونسل سیشن کو بغیر تنظیمی تیاریوں کے منعقد کروایا لیکن اسکے بعد بدنیتی اور دھوکے کے آثار کو محسوس کرتے ہوئے سینئر دوست پولنگ کے دوران ہی علامتی واک آوٹ کر گئے۔ اس کے بعد موقع کو  غنیمت جان کر تمام عہدوں پر یکطرفہ اعلان بغیر کسی پولنگ کے کیا گیا۔


سابقہ اراکین نے بیسویں کونسل سیشن کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس سیشن میں بھی اسی طرح کا کلہاڑ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن سابقہ قیادت کی بالغ النظری کی وجہ سے تنظیم بحران سے محفوظ رہا۔ کونسل سیشن کے بعد ہم نے گروہ بندی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے تنظیم کی قومی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے کوشش کی اور اس میں سرخ رو ہوئے لیکن آخری ادوار میں تنظیم کو ایک بار پھر غیر سنجیدگی کا بھینٹ چڑھایا گیا جس کی مخالفت آئینی طریقوں سے کی لیکن دھوکہ اور غلط بیانیوں کے سبب تنظیمی ساکھ کو برقرار  رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

مرکزی کمیٹی کے عہدوں پر بھی پولنگ کے بجائے اگلے دن الیکشن کمیٹی نے کابینہ کے ساتھ ملکر مرکزی کمیٹی کے ناموں کا اعلان کیا۔


 آئینی طور پر خواتین کے لئے مخصوص کوٹہ اور ان کی کونسل سیشن میں شرکت کے باوجود کسی کو مرکزی کمیٹی میں شامل نہ کرکے اجلت و سیاسی بدنیتی کی انتہاء و آئینی طریقہ کار اور لوازمات کو پامال کیا گیا۔ آئین اور کونسل سیشن پر اثر انداز ہونے کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی اور اختر جان مینگل کا نام استعمال کرکے لابنگ کی گئی۔ 


ہماری طرف سے سینئر سے لیکر تمام سطح کے ممبران تنظیمی زمہداری کے لئے تیار تھے لیکن سینئرز کو فارغ کرنے و فریش دوستوں کو زاتی وجوہات کی بناء پر سائیڈ لائن کروادیا گیا جس کا بی ایس او کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 


 بی ایس او کے کسی کونسل سیشن میں اتنی بڑی کھیپ کو بغیر پولنگ الیکشن کے فارغ کیا گیا الیکشن نہ ہونے کے تمام تر ثبوت سردار اختر جان مینگل و ڈاکٹر قدوس بلوچ کو اسی وقت بھیج دئیے گئے تھے۔


کونسل سیشن کی تیاریوں سے متعلق بارہا سابقہ چیئرمین و پارٹی قیادت کو آگاہ کرتے رہے لیکن کوئی حوصلہ افزا ردعمل نہیں آیا بلکہ عظیم تنظیم کی کونسل سیشن کو فارملٹی کے طور پر کروا کر خانہ پوری کی گئی جس پر ہم نے پہلے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے تحفظات کا نتیجہ یہی نکلا کہ تنظیم کو دھڑے بندی کے نہج پر لاکر مکمل طور پر یکطرفہ فیصلے مسلط کئے گئے تاکہ تنقید اور اختلاف رائے کا گلا ہمیشہ کیلئے گھونٹا جائے۔


اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام تر تحفظات و صورتحال کے باوجود ہماری طرف کسی ایسے عمل کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ تنظیم مزید تقسیم و دو الگ سیٹ اپ میں کام کرے جس سے ممبران و زونز کو سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہو۔


 حالیہ کونسل سیشن و 5۔6 اکتوبر کے مرکزی کمیٹی کے اجلاس کی فیصلوں کو رد کرنے کے خلاف احتجاج کو مزید موثر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 


جسکے تحت بی ایس او کے زونز و ممبران کو آگاہ کرنے کے لئے پمفلٹ یا پارٹی قیادت اور اراکین کو بزریعہ لیٹر آگاہ کیا جائے گا تاکہ پارٹی یکطرفہ ڈی فیکٹو کابینہ کی آئینی و تنظیمی حیثیت کے مطابق غیر آئینی چیزوں کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ بی ایس او اور بی این پی کے درمیان راجی رہشون سردار عطاء اللہ خان مینگل کے تاریخی موقف کی وجہ سے قائم سیاسی قربت اور قومی یکجہتی کی قربانیاں کمزور نہ پڑیں۔


 اس حوالے سے ہم بلوچستان کے تمام دانشور طبقہ، سیاسی کارکنوں، طلباء تنظیموں سمیت صحافی برادری سے درخواست کرتے ہیں کہ ڈی فیکٹو کابینہ پر ہمارے بلاک کی طرف سے سوالات پر مکمل تحقیقات کرکے ہمیں قصور وار ٹھہرائیں پھر ہم اپنے موقف پر پیچھے ہٹنے کو تیار ہونگے۔ غیر آئینی طریقے سے لائی گئی کابینہ کسی اسٹیج پر تقریر و فوٹو سیشن کرسکتی ہے لیکن اس سے سیاسی عمل کی نفی ہوگی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے بی ایس او کے ممبران کا اجلاس جلد منعقد کرنے کے لیے رابطہ کمیٹی اور حکمت عملی کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو مشاورت کو مزید وسعت دیکر اجلاس کا مقام اور وقت کا تعین کریں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post