اقوام متحدہ اور اسکے متعلقہ اداروں نے منگل کے روز ایک بار پھر ان ملکوں سے جو افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیج رہے ہیں اپنی یہ اپیل دہرائی ہے کہ وہ سخت جاڑوں کے آغاز اور افغانستان میں بدتر ہوتے ہوئے انسانی بحران کے پیش نظر بڑے پیمانے پر اپنے ہاں سے افغان شہریوں کو نکالنے کا سلسلہ فوری طور پر معطل کردیں۔
یہ اپیل ایسی اطلاعات آنے کے بعد کی گئی ہے کہ ایران اور پاکستان نے گزشتہ دو ماہ کے دوران مجموعی طور پر پانچ لاکھ سے زیادہ افغانوں کو اپنے ملکوں سے نکل جانے پر مجبور کیا ہے اور نکالے جانے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائیزیشن فار مائیگریشن یا آئی او ایم نے منگل کے روز کہا کہ پاکستان سے کوئی پونے چار لاکھ افغان طورخم اور اسپن بولدک کی سرحدی گزرگاہوں سے گزر کر وطن واپس پہنچے ہیں۔ افغانستان کے طالبان حکام نے پڑوسی ملک سے چار لاکھ سے زیادہ افغانوں کی واپسی کی اطلاع دی ہے۔
آئی او ایم کے افغانستان مشن کی سربراہ ماریا موئیٹا نے کہا ہے کہ صورت حال خراب ہے اور زیادہ تر لوگوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں اپنا سامان اور بچت پیچھے چھوڑکر پاکستان سے نکلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
موئیٹا نے کہا ہے کہ افغانستان آنے والے لوگوں کو سرحد پر اور پھر جہاں ان کی آباد کاری کی جائے، طویل المدت مدد کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بڑا انسانی بحران ہے اور انکی مدد کے لئے فوری طور پر فنڈز کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جو افغان واپس چلے گئے ہیں یا واپسی کے عمل میں ہیں، وہ یہ کام رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں اور صرف سولہ فیصد ایسے ہیں جنہیں زبردستی بھیجا گیا ہے۔
افغانستان کی طالبان حکومت ان افغانوں کے نکالے جانے کو مسترد کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ ان کو واپس لیا جائے۔ لیکن اسلام آباد نے یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی مسترد کر دی ہے کہ اس کارروائی کا ہدف وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں یا ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی وہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
افغان میڈیا نے طالبان حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ایران سے ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ پناہ گزین واپس بھیجے گئے ہیں۔ جن میں سے حکام کے بقول نوے فیصد لوگوں کو زبردستی نکالا گیا ہے۔
تہران نے سرکاری طور پر اس بارے میں کسی کارروائی کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن ایرانی حکام حالیہ ہفتوں میں بار بار غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو نکالنے کے لئے کہہ چکے ہیں۔
پاکستان غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں پر یہ الزام لگاتے ہوئے انہیں واپس افغانستان بھیجنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتا ہے کہ پاکستان میں جنگجوؤں کے مہلک حملوں میں حالیہ اضافے میں انکا کردار ہے۔ طالبان حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ چودہ لاکھ افغان پناہ گزین جن کے پاس رجسٹریشن کے ثبوت موجود ہیں، اس کارروائی کا ہدف نہیں ہیں۔اس ماہ کے اوائیل میں حکومت نے ان کی قانونی رہائشی کی حیثیت میں اکتیس دسمبر تک توسیع کردی ہے۔
اسکے علاوہ وہ آٹھ لاکھ سےزیادہ افغان بھی اس کارروائی کا ہدف نہیں ہیں جنہیں سابق افغان حکومت کے دور میں پاکستانی حکومت نے رجسٹر کیا تھا، جنکے پاس آئی او ایم کے منظور کردہ افغان شہریت کے کارڈز ہیں۔