کیچ 7 لاپتہ نوجوانوں میں سے دوبھائیوں سمیت ایک نوجوانوں کو پہلے گولیاں مار کر ھلاک بعد میں بم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ سول سوسائٹی کی پریس کانفرنس


تربت بلوچستان سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوشاپ میں گزشتہ روز بم دہماکہ میں جن تین نوجوانوں کی ہلاکت کا دعوی پولیس نے کیا ہے کہ وہ دراصل پہلے سے زیر حراست تھے جنہیں سیکیورٹی فورسز نے اسی سال اگست کے  مہینے دوران مختلف مقامات سے لاپتہ کیا تھا۔

 ان میں شامل عادل ولد عصا کے اغوا کی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی، انہیں 22 اگست کی شام میرے کزن مجید شاہ ایڈووکیٹ کے چیمبر سے فورسز نے لاپتہ کیا تھا ان تینوں نوجوانوں کے علاوہ کل 7 نوجوان اگست کو لاپتہ کیے گئے جن میں سے چار ابھی تک لاپتہ ہیں۔  ہمیں خدشہ ہے کہ انہیں بھی جانی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اس لیے ہمارا سپریم کورٹ آف پاکستان، بین الاقوامی انسانی حقوق اور ایچ آ سی پی سمیت انسانی حقوق پر کام کرنے والے اداروں سے گزارش ہے کہ وہ ان چاروں نوجوانوں کی زندگی کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔

انہوں نے کہاکہ بم دہماکہ میں عادل عصا کے علاوہ ان کے بھائی شاہ جان ولد عصا اور نبی داد کو ہلاک کیا گیا جبکہ پیرجان ولد لشکران، زہیر احمد ولد لشکران، احمد خان ولد شگراللہ اور شوکت ولد لواری ابھی تک لاپتہ ہیں ۔ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے چچازاد بھائی اور قریب ترین رشتہ دار ہیں۔  ہمیں خدشہ ہے کہ انہیں مقامی سہولت کاروں کی ایما پر ذاتی دشمنی کے سبب سیکیورٹی فورسز نے اغوا کیا تھا اور پھر ذاتی دشمنی کی بنا پر ان میں سے تین کو جعلی دہماکہ کے زریعے قتل کردیا گیا، ان تینوں کے جسموں پر گولیوں کے واضح نشانات بھی موجود تھے اس کا مطلب ہے کہ انہیں بم دہماکہ سے پہلے گولیاں مار کر قتل کیا گیا اور پھر بم دھماکہ میں نعشوں کو اڑا کر ان کی  بے حرمتی کی گئی ہے۔


 انہوں نے کہاکہ اس نام نہاد بم دھماکہ میں جو گاڑی استعمال کی گئی تھی سننے میں آرہا ہے اس کو واقعہ سے دو روز قبل سی ٹی ڈی نے ڈی بلوچ شاہراہ پر ایک نوجوان سے چھین لیا تھا اور پھر اسی گاڑی کو دھماکہ میں استعمال کیا گیا ۔ 


 انہوں نے کہاکہ پہلے ادارے براہ راست نوجوانوں، طلبہ اور سیاسی کارکنوں کے قتل و مسخ نعشیں پھینکنے میں ملوث تھے عالمی سطح پر تنقید کے بعد اب یہ کام سی ٹی ڈی کے زریعے کیا جارہا ہے جو پولیس کا ایک زیلی ونگ ہے، اس عمل کے زریعے بلوچوں کو آپس میں لڑانے اور پشتون بلوچ تضاد کو ابھار کر دونوں اقوام کو مدمقابل لانے کی ناکام  کوشش کی جارہی ہے۔

 انہوں نے بلوچ سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اہم قومی معاملات پر سیاست کرنے کے بجائے خصوصاً لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی اور جبری گمشدگی کا راستہ روکنے کے لیے کوئی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کا مطمع نظر صرف ووٹ اور الیکشن ہیں ان کے سامنے بلوچ لاپتہ کیے جارہے ہیں اور ان کی مسخ نعشیں پھینکی جارہی ہیں اب انہیں جعلی مقابلوں میں ہلاک کیا جارہا ہے لیکن یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی  مکمل خاموش ہیں جو افسوس ناک عمل  ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post