بلوچستان کے علاقے تربت میں بدنام زمانہ سی ٹی ڈی ہاتھوں گذشتہ رات مارے جانے ولا ایک شخص جبری لاپتہ شخص نکلا ، جسے عدالت میں بھی پیش کیاگیا تھا ۔
آپ کو علم ہے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے جمعرات کی علی الصبح چار افراد کی نعشیں ٹیچنگ ہسپتال تربت پہنچاکر یہ دعویٰ کیا کہ مذکورہ افراد کو بانک چڑھائی پسنی روڈ پر گذشتہ رات ایک مقابلے میں ہلاک کردیا گیا ہے ۔
علاقائی ذرائع کے مطابق مذکورہ افراد میں سے ایک کی شناخت بالاچ ولد مولابخش سکنہ آبسر تربت کے نام سے ہواہے جسے لواحقین نے شناخت کرلی ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ نوجوان کو 29 اکتوبر 2023 کی رات ایک بجے کے قریب تربت سے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ کردیا تھا۔
مذکورہ نوجوان کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے تھا وہ اسٹار پلس مارکیٹ تربت میں کشیدہ کاری کا کام کرکے اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا۔
ذرائع کے مطابق 21 نومبر کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان پر لگائے گئے الزامات کے تحت انھیں پیش کرکے عدالت نے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا، سنیئر وکیل جاڑین دشتی ایڈووکیٹ ان کے وکیل کے طورپر پیش ہوئے ۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی جانب سے مختلف اوقات میں مقابلوں میں مسلح افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے تاہم بعد ازاں تحقیق سے مذکورہ مقابلے جعلی قرار پائے ہیں جن میں بلوچ جبری لاپتہ افراد کو مارا کیا گیا ہے۔
گذشتہ دنوں کیچ کے علاقے بالگتر میں ایک دھماکے میں تین افراد کے مارے جانے کی خبر سامنے آئی تاہم بعدازاں مذکورہ نوجوانوں کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ ، عادل ولد عصا، شاہ جہان ولد عصا اور نبی داد ولد لیواری کے ناموں سے ہوا ۔ ان کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے انکے مزید چار نوجوان تاحال لاپتہ ہیں ۔
دوسری جانب بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچستان سول سوسائٹی نے سانحہ بالگتر پر پریس کانفرنس کی اور کہاکہ ایک ہی خاندان کے تین بچوں کو نیم زندہ حالت میں ایک گاڑی میں ڈال کر اسے بارودی دھماکے سے تباہ کردیا گیا جس سے ان بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے۔ یہ بچے پاکستانی فوج کی زیرحراست تھے۔
انھوں نے کہاکہ گذشتہ سال (2022) اگست کو اس خاندان کے سات بچوں کو مختلف مقامات سے پاکستانی فورسز نے عینی شاہدین کے سامنے جبری لاپتہ کیا تھا۔ ایک بچہ تربت کے ایک معروف وکیل کے چیمبر سے گرفتار کیا گیا ، دو بچوں کو سول ہسپتال تربت کے احاطے سے حراست میں لیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں بلوچستان بار کونسل نے تینوں لاپتہ افراد کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے جاری بیان میں کہا کہ ان مسخ شدہ نعشوں میں سے ایک کیچ کے معروف وکیل کے چیمبر میں کام کرنے والا لڑکا بھی تھا، جن کو 22 اگست کو وکیل کے چیمبر سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا، جن کے خلاف بلوچستان بار کونسل سمیت ملک بھر کے وکلاء نمائندوں نے مذمت بھی کی تھی اور جس کی جبری گمشدگی کے خلاف تھانہ تربت میں مقدمہ بھی درج کروایا گیا تھا۔