اسلام آباد بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربرا ہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل نے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کےساتھ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاس کے سامنے احتجاجی دھرنا ختم کرنے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت اوربعدازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان نہیں بلکہ پورے پاکستان میں جبری گمشدگیاں جاری ہیں۔ ہزاروں افراد لاپتہ ہیں یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسنگ پرسنز کسی جرم میں ملوث ہوں یا نہ ہوں ان کو عدالتوں میں پیش کریں اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کھلی عدالت میں کیسز چلائیں۔
سرداراختر مینگل نے اظہار یکجہتی کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ لیکن بد قسمتی رہی ہے کہ جو21 منتخب حکومتیں آئی ہے ۔ انہوں نے بھی اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا ہے یہاں تک کہ بل پیش کیے وہ بھی مسنگ اورکمیشن بنائے گئے اس کمیشن کی رپورٹ مسنگ ہے جو کمیٹیاں بنائی222 گئی ان کمیٹیوں نے کوئی کام نہیں کیا ہے آج کا احتجاج کرنے کا مقصد ہمارا یہی ہے کہ ہم احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت کو دکھانے کیلئے کہ ہم مسنگ پرسن کا مسئلہ نہ کہ صرف بلوچستان کا ہے اور نہ کہ صرف ملک کا ہے یہ ایک انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو جتنا جلدی ہوسکے حل کریں اور ان جتھوں جن کو قتل کرنے لائسنس دیا ہے جن کو حکومت کی سرپرستی میں آرگنائز کیا ہے کہ لوگوں کو اٹھائے اور بھتہ وصول کریں اور یہاں تک یہ اجازت دی گئی ہے کہ کسی کو مارے بھی ان کے خلاف ایف آئی آر نہیں کٹتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جب مسنگ پرسن کی بات کرتے تھے تو ہم پر وہ سیاسی پارٹیاں تنقید کرتے تھے آج ان سیاسی جماعتوں اور صحافیوں پر بات آئی ہے آپ کہتے2 ہیں کہ ہمارے لوگ بھی مسنگ ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں 20سالوں سے جبری گمشدگیاں222 جاری ہیں ان کی شنوائی اس لیے نہیں ہورہی ہے کہ بلوچستان کولاوارث سمجھا گیا ہے اور2 لاوارث لوگوں کے حوالے سے نشتر ہسپتال کے چھت سے جو لاشیں ملی ہیں جن کو لاوارث کہلا کر دفنا دیا گیا ہے جو2 پورے کہ پورے بلوچستان کو انہوں نے لاوارث سمجھا ہے ۔مسنگ پرسن کا منتخب حکومتوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا ہے ہم نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کیے ان کی طرف سے کوئی شنوائی نہیں آئی ہے مجھے نہیں لگتا ہے کہ نگران حکومت مسنگ پرسن کے حوالے سے کوئی ایکشن لے گی ہم اس احتجاج کو اپنا فرض اور قرض سمجھتے ہیں جو ادا کر رہے ہیں نگران وفاقی حکومت کو مسنگ پرسن کی درد کے بدلے میں سرکاری میٹھائیاں ملتی ہے جو درد کا اثر ختم ہوجاتا ہے ۔
سرداراخترمینگل نے کہاکہ سینیٹرمشاہد حسین نے جس طرح کہا ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھ کر آنا چایہےتھا۔ ہم تیار ہیں آل پارٹیز کانفرنس کیلئے بلکہ ہم آل پارٹیز کانفرنس بلائیںگے تمام سیاسی جماعتوں چاہے جو حکومت میں ہو اپوزیشن میں ہو یا پھر جو جیل میں ہوں سب کومدعو کرینگے کہ آنے والے دور میں ان اداروں کوپابند کیاجائے کہ لاپتہ افراد اس ملک کے شہری ہیں ان کےساتھ بھی ایسا رویہ اختیار کرے جس22 طرح غیرملکی ایجنٹوں کے ساتھ روا رکھاجاتاہے ،ہم یہ نہیں کہتے کہ انہیں بغیر تحقیق رہاکیاجائے بلکہ انہیں عدالتوں میں پیش کیاجائے بے گناہ افراد کو چھوڑ دیاجائے تاکہ ان کے فیملی کے اراکین جس قرب سے گزررہے ہیں وہ ختم ہوں ،کمیشن کاکام رپورٹ دیناہے بازیابی حکومت واداروں کاکام ہے ،سناہے لاپتہ افراد کمیشن کو ایکسٹینشن دی گئی ہے جو کمیشن 10سال میں کچھ نہ کرسکی توپھر اب کیاکرسکے گی۔
انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی جماعتوں ،پارلیمانی ممبران جنہوں نے یکجہتی کااظہار کیا ان پر شکر گزار ہیں ،نواز شریف اور عمران خان کو لاپتہ افراد کی آہ کا تو نہیں پتہ لیکن جو اعتماد تھا اب وہ نہیں رہا ۔آئندہ کالائحہ آل پارٹیز کانفرنس کاانعقاد ہے جس میں تمام سیاسی2 جماعتوں کو مدعو کیاجائے گا،چارٹر آف ڈیموکریسی اور چارٹر آف معیشت آیا اب چارٹر آف مسنگ پرسنز پر کم از کم عمل درآمد کیاجائے ۔
سینیٹرمشاہد حسین سید نے کہاکہ لاپتہ افراد کامسئلہ پاکستان کامسئلہ ہے لاپتہ افراد کی گمشدگی قابل قبول نہیں ،آئین اور قانون کی پاسداری ،پارلیمنٹ کی بالادستی کی سب بات کرتے ہیں اور رول آف لاءکا سب سے بڑا ٹیسٹ لاپتہ افراد ہے ،پاکستان کو آگے بڑھناہے تو لاپتہ افراد کامسئلہ حل ہوناچاہےے ،آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائیں جوبھی الیکشن جیتیں وہ پہلی فرصت میں لاپتہ افراد کامسئلہ حل کرے اورپہلے 30دن میں یہ مسئلہ حل کرے ۔
اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماءسینیٹر رضاربانی ،آمنہ جنجوعہ ،نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ محسن داوڑ،افراسیاب خان خٹک ودیگر نے دھرنے کے شرکاسے یکجہتی کی۔