بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5159 دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ وطن پارٹی کے آرگنائزر حیدر رئیسانی اور کمیٹی ممبرسردار محمد حنیف مری اور بی این پی کے ضلعی صدر غلام نبی مری بی ایس او کے سابقہ چیرمین جاوید بلوچ نے اظہار یکجہتی کی۔
دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بلوچستان خاص کر مکران میں پے در پے فوجی کاروائیوں پر انسانی حقوق کے چیمپینز کی خاموشی پر حیرت ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچستان میں عام آبادیوں پر بہیمانہ بمباری خواتین بچوں بوڑھوں سمیت نہتے بلوچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا انہیں جبری طور لاپتہ کرنا اور اپنے زر خریدوں کے زریعے بلوچ طلباء نوجوانوں سیاسی کارکنوں سمیت مختلف سعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو ٹارگٹ کرنا اور دیگر نسل کش اقدامات شامل ہیں ۔
بیان میں کہاہے کہ پاکستانی فورسز کی ان سفاکانہ کاروائیوں کو پوری دنیا جنگی جرائم تسلیم کرتے ہوئے اس کی فوری روک تھام پر زور دے رہی ہے مگر ریاستی فورسز اور حکمران قوتیں بلوچوں کے پرامن جدجہد کی کامابی کی وجہ سے اس طرح صدمے کا شکار ہیں کہ وہ بہرے ہو گئے ہیں اور انہیں روکنے والے آوز سنائی ہی نہیں دے ر ہے ہیں ۔
انھوں نے کہاہے کہ اس وقت فوجی کاروائیوں میں مکران کو شدید نشانہ بنایا جا رہا ہے یہی کیفیت اگر چہ بلوچستان بھر کی ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے مکران میں بلا توقف پے در پے فوجی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے ، آواران ہوشاپ تربت اور مختلف اضلاع میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تیز کیاگیا ہے ۔ دوسری جانب بلوچ آبادیوں پر بمباری کرکے انہیں تہس نہس کر دیا گیا ہے جس میں خواتین بچو کی بڑی تعداد نشانہ بنی ہے۔
ماما نے کہا ہے کہ بلوچ کا اقوام متحدہ کے ادارے سے بلوچ قومی تنازعہ کے حل کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہ کسی بھی طور غلط نہیں ہے۔ اس طرح بلوچ قوم اقوام متحدہ سمیت حق و انصاف اور امن کے داعی تمام بین الاقوامی قوتوں سے اس مطالبے پر حق بجانب ہے کہ وہ مکران اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پاکستانی فورسز کی بلوچ نسل کش کاروائیوں اور جنگی جرائم کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس کی روک تھام کی اصل بنیاد بلوچوں کی جبری گمشدگی کے حل کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں -