گوادر میں ائر پورٹ کو باہر کے کسی شخص کے نام سے منسوب کرنا پنجاب اور وفاق کا بلوچستان کے ساتھ سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ بی ایس او رہنماوں کا پریس کانفرنس



شال بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق مرکزی چیرمین نذیر بلوچ، ایڈووکیٹ امین مگسی، بی ایس او کے سابق وائس چیرمین خالد بلوچ، ایڈووکیٹ صدام بلوچ میران کمال بلوچ،  بی ایس او کے سابق مرکزی کمیٹی کے اراکین سلیم بلوچ، اقبال بلوچ، پرویز بلوچ، عتیق بلوچ، امیر ثاقی بلوچ، ظاہر بلوچ سمیت دیگر رہنما وں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان اپنی اسٹریٹجک، عالمی وعلاقائی پوزیشن اور بیش بہا وسائل و طویل ساحل  کی وجہ سے عالمی و ریجنل سطح پر تمام استعماری طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے اور قدرتی ذخائر کی دریافت ہے، لیکن بلوچستان کے اپنے باسی آج شدید غربت و تنگ دستی ،بزگی اور  مفلوک الحالی کی  زندگی گزارنے پر مجبورکئے گئےہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستانیوں کا اپنی سرحدی ممالک سمیت دیگر ریجنز کی  تمام سامراجی طاقتوں اور باالخصوص اسلام آباد کی مجموعی جبری و ناانصافی  پالیسی ،پولیٹکل اثر و رسوخ اور بلوچستان  کے حالات میں ایک فریق کے طورپر موجودگی پر شدید اعتراض و غم غصہ پایا جاتا ہے جسکی ساری زمہ داری اسلام آباد اور نوآبادیاتی آقاؤں پر عائد ہوتی ہے۔


اسی طرح بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار، انہیں ہتھیانے سمیت ادارتی سطح پر مذموم مقاصد اور استحصالی پالیسی بنیاد پر شعور و علم پر غیر اعلانیہ پابندی، بلوچ نسل کشی اور سیاسی لوگوں کا راستہ روک کر حقیقی لوگوں کے بجائے منفی، من پسند اور سماج دشمن عناصر کو اسپیس مہیاکرنا، بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور آقائی پارلیمان سے عدم اطمینان کا باعث بنا ہےجسکی موجودہ مثال موجودہ مردم شماری کے نتائج میں 70 لاکھ کی تبدیلی ہے ۔


 انھوں نے کہاہے کہ 2017 کے متنازعہ مردم شماری جس کے وقت کاغذی و غیر حقیقی ہونے کے بعد جس پر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے جانب سے اعتراضات لگائے گئے جسکے بعد 10 سال سے پہلے قبل از وقت 2023 میں مردم شماری جسکو نام نہاد ڈیجیٹل سینس کا نام دیا گیا جسکے بعد حکومت کے اپنے اعداد شمار کے تحت بلوچستان کی آبادی دو کروڑ سے زائد بتائی گئی جسکا زکر سرکاری اداروں کے سوشل میڈیا پیجز پر موجود ہے جبکہ بلوچستان میں بدانتظامی آفیسران کی کرپشن ڈیجیٹیل میپس میں خامیوں و باقائدہ مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے پچاس فیصد گدان و مکان مکمل طور پر مردم شماری کے کوریج میں نہیں آسکے۔


انھوں نے کہاہے کہ بجائے مردم شماری کے غلطیوں کوٹھیک کرنے  و کمزوریوں کی نشاندہی و زمہ داروں کو سزا دینے کے کیلکولیٹر اٹھا کر خودساختہ فارمولا بنا کر مصنوعی نتائج لوگوں پر مسلط کی گئی، پوسٹ اینومریشن سروے میں کمال تعصب و بدنیتی کی گئی قلات ڈویژن کے تمام 34 سو بلاکس کی نتائج کو صرف ڈسٹرکٹ خضدار کے 42 بلاکس کے بنیاد پر تبدیل کیا گیا، اسی طرح مکران، رخشاں، سمیت تمام ڈویژنز پر سیم فارمولہ استعمال کیا گیا۔ اب مشترکہ مفادات کونسل جوکہ حقیقی معنوں میں استحصالی کونسل ہے کے زریعے  حتمی نتائج صرف جمع تفریق کرکے بلوچستان کے آبادی کو 70 لاکھ  کم ظاہر کیا گیا جسکا مقصد آئندہ کئی سالوں تک بلوچستان کے وسائل کو ہڑپ کرنا ،لوٹمار کو دوام دینا ہے جبکہ پنجاب کی برائے نام بالادستی قائم رکھا جانا  سپریمیسی کی مثال ہے۔

جسکو موجودہ حالات میں  کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر خاموش رہا جائے گا۔


پریس کانفرنس دوران ان کا کہناتھا کہ مردم شماری جیسے حساس ایشو پر وزیر اعلی بلوچستان جسکو بدقسمتی سے بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں کی عددی حمایت حاصل ہے نے برائے نام استحصالی طبقات کو ووٹ دیکر مکمل خاموشی اختیار کی جبکہ اس اہم ایشو پر صوبائی کٹھ پتلی حکومت   نے بالادست پنجاب کے مفادات کے تحفظ کیا، حکمرانوں کی طرف سے اس اہم ایشو پر انتہائی عجلت میں فیصلہ سازی مرکزی و صوبائی حکومت کی روائتی بلوچ دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔


انھوں نے کہاکہ جاتی ہوئی بلوچستان  حکومت محض بدنامی و بلوچ وسائل کے سودا گری و کرپشن کے لئے یاد رکھی جائے گی جس نے مردم شماری، ریکوڈک سمیت دیگر امور میں صرف ربڑ اسٹیمپ کا کام کیا جبکہ بلوچستان بدترین انتظامی بحران،خوراک کی اسمگلنگ کی وجہ سے شدید مہنگائی، بیروز گاری و بندر بانٹ کا بازار منڈی بنا،قول و فعل اور  عمل میں مکمل طور پر تضاد ہی رہا۔


انھوں نے کہاکہ  ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں سماج کے منفی کرداروں،اوباش لچے لفنگوں کو اکٹھا کرکے عوامی نائندہ گان بنائی گئ جنکا سیاسی اسٹیک سے کوئی تعلق نہیں تھا نہ ہی سیاسی زانتکاری  کے عمل سے گزرے ہوئے سیاسی کارکن ہیں، انہیں مسلط کرنے کے مقاصد صرف ربڑ اسٹمیمپ کو منفی ومجرمانہ عمل  کو برائے نام قانونی شکل دینا ہوتا ہے جو بلوچستان میں نام نہاد اسمبلیوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔


بی ایس او رہنماوں نے کہاکہ جب تک بلوچستان میں اسطرح کے منفی پالیسیوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، طاقت کے استعمال کو ختم کرکے بلوچ کو بجائے محکوم کے یہاں کے سیاسی اسٹیک ہولڈر کی بنیاد پر تسلیم نہیں کیا جاتا بلوچستان کے پیچیدہ مسائل کا  حل ناممکن ہے محض کاسمیٹکس و نمائشی اقدامات کے زریعے بلوچ و رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے ہتھکنڈے موجودہ جدید دور میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے اور نہ ہی آج کا بلوچ ان نا انصافیوں کو قبول کرتا ہے۔


انھوں نے کہاکہ گزشتہ دنوں تربت میں نوجوان طالب علم اور پارئییویٹ ٹیچر کا مذہبی بنیاد پر قتل اور ملائزم کو اسپیس دینا بلوچ سیکیولر سماج اور ہمارے قومی روایات رواداری اور قردار پر حملہ ہے جسکی آج ہم اس پریس کانفرنس میں بھرپور مذمت اور قتل میں ملوث عناصر کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ منصوبے کے تحت بلوچ سماج میں عدم برداشت،مذہبی کارڈ اور فاشزم کو ہوا دی جارہی ہے جس سے ہمارا معاشرتی قتل مقصود ہے،ہم ملک کے آئین میں نوجوان ٹیچر کےبہیمانہ قتل اور آئینی حوالے سے کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جہاں ہماری سماج کو منتشر اور تقسیم کیا جارہا ہے وہیں ہمارے تعلیمی اداروں میں حصول علم پر پابندی،جبری گمشدگیوں میں تیزی،اواران ،کوئٹہ اور کولواہ میں گھروں کی مسماری سمیت فوجی آپریشنز کو سرکاری سطح پر جاری رکھنا بلوچ نسل کشانہ پالیسیوں کا تسلسل اور جبری پروگرام کی طوالت کا حصہ ہے۔


انھوں نے پریس کانفرنس میں کہاکہ گزشتہ ہفتہ آٹھ دن سے کوہلو لائبریری پر قبضہ اور انتظامی آفیسران کیلئے اسپیس کے طورپر استعمال میں لانا سرکاری علم دشمنی اور بلوچ اسٹوڈنٹس کیلئے تعلیم کے دروازے بند کرنے کی منصوبے ہیں جسے تمام اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ملکر ناکام بنائینگے اور طلبہ کی اس جدوجہد میں انکے ساتھ ہیں۔


انھوں نے کہاکہ پاکستان اور بلوچستان  میں جامعات  کی بندش علم  دشمنی ہے ،ہاسٹلز سے طلباء کے انخلا اور غازی یونیورسٹی سمیت بلوچ طالبہ ثناء ارشاد کی ہراسمنٹ سمیت دیگر یونیورسٹیز میں بلوچ و پشتون اسٹوڈنٹس کی پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان نا جائز حرکات وکرداروں کے خلاف طلبہ کے ساتھ ہر محاذ پر انکے ساتھی ہیں،مکمل سپورٹ و مدد اور قانونی سپورٹ  فراہم کرینگے۔


 انھوں نے کہاکہ  نہاد بلوچستان  حکومت جس نے ریکوڈک کے انتہائی مبہم معاہدے پر بھی مہر بضرورت وفاق ضروری مہر ثبت کرکے مکمل طور پر بلوچ دشمنی کا ثبوت دیا،لوٹماری  معاہدے کے بعد نہ ہی ماحولیاتی مسائل کا حل ڈھونڈا گیا اور نہ ہی انسانی صحت و بلوچستان کے مالکانہ حقوق پر کوئی بات کی گئی جوکہ شرمناک و بلوچستان کے ساتھ مظالم کی انتہاء ہے ۔ 


طلباء نے پریس کانفرنس میں کہاکہ حالیہ دنوں میں  پاک چائنا گوادر یونیورسٹی کے نام پر پنجاب  میں یونیورسٹی کے قیام کی بل قومی اسمبلی سے عجلت میں  منظور کی گئی جس پر وفاقی وزیر احسن اقبال نے اسے پرائیویٹ یونیورسٹی کہکر رخ موڑنے کی کوشش کی جبکہ گوادر کے نام پر حاصل ہونے والی مختلف سرمایہ کاری کو یا تو بلوچ نسل کشی اور مابین  بلوچ کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہاہے اور ہمیشہ سے پنجاب کی   فلاح و بہبود کے لئے تسلسل سے  استعمال کیا جاتا رہاہے،   جسے کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی، دراصل یہی تو وہ محرکات ہیں جنکی وجہ سے بلوچستان میں دوسرے صوبوں کے ساتھ وفاقی رشتہ کی کمزوی ہمارے سامنے ہے 

 گوادر میں ائر پورٹ کو  باہر کے کسی شخص کے نام سے منسوب کرنا پنجاب اور وفاق کا   بلوچستان کے ساتھ سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔


انھوں نے کہاکہ  گوادر میں  وہاں کے باسی  علمی و سیاسی طور پر ہمیشہ متحرک و فعال رہے ہیں جسمیں بڑے شاعر و ادیب پیدا ہوئے، سیاسی رہنما و سیاسی کارکنوں کی لازوال قربانیاں گوادر کے تاریخ کا حصہ ہیں ،میر حمل جیند کلمتی جیسے  ہیروز جہنوں نے استعماری  جنگوں میں پرتگالی ان ویڈرز کا مقابلہ کیا اور انکی توسیع پسندانہ عزائم کو شکت دی اور اسی طرح علمی و ادبی محاذ پرعبدالمجید گوادری نے بہت خوبصورت اور قابل قبول خدمات سرانجام دیں اور لوگوں کو شعوری سطح پر متحرک کیا،لہذا  گوادر ائیر پورٹ کو گوادر کے کسی سیاسی و علمی  شخصیت کے نام سے منسوب کیا جائے۔


انھوں نے کہاکہ آج عالمی سطح پر انٹرنیشنل یوتھ ڈے منایا جارہاہے جسکا مقصد نوجوانوں کو علمی،سیاسی،سماجی، انسانی حقوق اور معاشرتی بنیاد پر متحرک کرکے سوسائٹی کی بنیاد کو ٹھیک اور معاشرے میں پنپنے والے تضادات کو ختم کرکے ترقی کی طرف سفر کو آسان وسہل بنا کر بہتری کی جانب گامزن ہوسکیں۔


ہمارے آج کے پریس کانفرنس کا مقصد بھی یہی ہےکہ موجود کھٹن حالات اور نامساعد پوزیشن میں بحیثیت ایک مظلوم قوم ہماری ملی و قومی ذمہداری بنتی ہے کہ ہم موجودہ صورتحال میں اپنی تاریخ، سیاسی ضروریات، سماجی نابرابری اور سرکاری  ناانصافیوں کیخلاف آواز بلند کرنے اور شعوری طور پر کوشاں رہنے کی وجہ سے ہم یہاں آپ لوگوں کے سامنے آئے ہیں اور بلوچ نوجوانوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ  ان مسائل و بلوچستان میں نوجوانوں کو سیاسی طور پر فعال و متحرک بنانے کے لئے کردار ادا کرنے اور ہمارے ساتھ ایک توانا آواز بننے کے ساتھ باقاعدہ ابتدا کررہے ہیں، آگاہی مہم و سیاسی کارکنوں کو یکجا و ان مسائل پر متحرک کرنے کے لئے بھرپور طریقے سے مہم چلائی جائے گی ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post