بلوچ جبری لاپتہ افراد کے جاری کیمپ کو 5143 دن مکمل



بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5143 دن ہو گے۔


 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری عزیر بلوچ ، سینٹرل کمیٹی ممبر فوزیہ بلوچ اور عامر بلوچ سمیت اور دیگر ساتھیوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


وائس فار بلوچ مسنگ  پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ 21 ویں صدی میں دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے، جہاں دنیا کی کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعات دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کو کسی نہ کسی شکل میں متاثر کر رہی ہوتی ہیں، اسی طرح دنیا کی کسی بھی کونے میں بسنے والے انسانوں کی حالات زندگی اور ان پر گزرنے والے حالات بھی تمام انسانوں کیلیے یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔


ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس خطے میں بلوچ پشتون سندھی چھ دہائیوں سے جاری منظم نسل کشی ریاستی دہشتگردی اور جبر و ستم کا شکار ہیں، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کھلے عام ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہو رہی ہیں ایک ایسی ریاست کے ہاتھوں جو کہ عالمی برادری کے امداد پر چل رہا ہے، بلوچ پشتون قوم پر ظلم و ستم اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں آج کی بات نہیں اور بلوچستان نہ چند سالوں کی بلکہ، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، بلوچ قومی ریاست کو فوج کشی کے ذریعے پاکستان میں ضم کر کے بلوچستان کو ایک نوآبادی بنا دیا گیا، اسی دن سے ہی بلوچ پشتون قوم کے قومی انفرادی حقوق غضب کیے گئے جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔


 ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دہائیوں پر محیط جبر استحصال اور انسانی حقوق کی پامالیاں اپنی جگہ جاری ہیں، لیکن گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان میں ایک واضح حکمت عملی کے تحت ریاستی اداروں کی جانب سے ایمرجنسی صورت حال نافذ کی جا چکی ہے۔


 آج بلوچستان ایک ایمرجنسی زون کا منظر پیش کررہا ہے، جہاں نہ کوئی ریاستی قانون نافذ ہوتا نظر آتا ہے، اور نہ ہی عالمی انسانی حقوق کے قوانین سمیت کسی بھی عالمی قانون کی پاسداری ہو رہی ہے، بلوچستان میں ریاستی اداروں کی کاروائیوں کا تجربہ کر کے ہم بہ آسانی بلوچستان میں اس ایمرجنسی صورت حال کو دیکھ سکتے ہیں، بلوچستان میں ایف سی کی حکومت ہے تو یہ کن قانون کے پابند ہے اور ریاست کے کن اداروں کو جوابدہ ہیں یہ ریاست کے اداروں اور ان کی بلوچستان میں موجودگی ایک سوالیہ نشان ہے جو کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ دہائی سے ایمرجنسی نافذ ہے اور یہاں کسی بھی قسم کی ریاستی اور عالمی قانون نافذ العمل نہیں ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post