ملکوں کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں چندر گپت موریہ اشوک ،سلطان صلاح الدین ہو سلطنت عثمانیہ، منگول، اور ایسٹ انڈیا کی بنگال میں آمد سمیت جھانسی کی رانی علاوہ دیگر ریاستوں کے راجے مہاراجے، مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تحریک جدوجہد ہو یا حکمرانی انھیں اس وقت تک کامیابی ملتی رہی اور زیر نہیں کیا جاسکا اور نہی حکمرانی چھینی گئی جب تک دشمن کے ہاتھ میر جعفر، الہی بخش ماما شکنی اور ملا حسن وغیرہ جیسے کردار نہ لگے ۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں بڑے بڑے سورما حکمران، بادشاہ ، دشمن قابض کو شکست دی یا انکے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے جب اپنے سپاہی ساتھی اور عہدیدار نے دھوکہ دیکر غداری کی ۔
اگر حکومتوں اور تحریکوں میں ایسے منفی کردار نہ ہوتے تو نہ کبھی سلطنتیں ، ملک اور تحریکیں ڈوبتیں نہی کسی قوم کا قتل عام بے دردی سے کیا جاتا اور کلنگا اور دریا نیل انسانی خون سے لال ہوتیں ۔
اگر ہم بلوچستان کے 75 سالہ غلامی دوران آزادی کیلے اٹھنے والے تحریکوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہی کردار ہمیں ہر وقت کہیں نہ کہیں طاقتور یا کمزور شکل میں نظر آتے ہیں جو کردار خان میر محراب خان کے دور میں انگریزوں اور خان کے خطوط اس لئے بدلتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ دوست نہ بنیں اور دونوں فریقوں میں جنگ چھڑ جائے ۔بعد میں وہی ہوا جو وہ چاہتے تھے ۔
بلوچ آزادی کی تحریک میں بھی مختلف تنظیموں میں وہی کردار دائیاں ہاتھ بن کر تحریک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہے ہیں ، مگر کسی کی مجال ہے ان پر انگلی اٹھانا درکنار ان کے بارے شک کی نگاہ سے دیکھیں، کہ آیا یہ شعوری یا لاشعوری عمل کر رہاہے ۔ کسی کو یقین ہی نہیں ہوتا جب تک وہ خود دشمن کے گود میں جاکر اسکے خلاف بندوق واپس اس پر تان نہ لیں ۔جس طرح ماضی میں سلطانوں حکمرانوں اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے ٹھیک وہی بلوچ کے تحریک کے ساتھ جانے انجانے میں ہورہاہے اس اندھے بھروسہ کو اگر روکا نہ گیا تو خطرناک سے خطرناک شکل اختیار کرکے لاوا بن جائے گا ۔
ماہرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ دانا وہ ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھے ۔ جب آپ یہ انتظار کریں گے کہ غلطی کر کے پھر سیکھیں گے تو اس وقت آپ دشمن کے پنجوں میں اس کے رحم وکرم پر ہونگے کہ کب آپ کو میڈیا کا زینت بناکر پیش کرکے بار بار شرمندہ کرتے رہیں کہ اپنے ماضی کے اچھے کرموں کو بری سمجھ کر معافی مانگیں، جو ماضی میں اچھا کیا تھا یعنی وہ غلط تھا، آپ کو پشتاوا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
لہذا اب بھی وقت ہے مسلح سیاسی سماجی تنظیمیں پارٹیاں سوشل میڈیا کارکن انسانی حقوق کے ادارے یعنی آزادی کے تحریک کے سب کردار ممبر سے لیکر رہنما ء اپنا خود احتساب کرکے جائزہ لیں اور ( الف)سے لیکر (ی) تک ہر ساتھی ممبر رہنما ء پر پارٹی ڈسپلن کے تحت سایہ بن کر نظر رکھیں اندھا یقین چھوڑ دیں ۔ جاسوسی نظام کا جال بچھائیں کہ ہمارے اندر کوئی ملا حسن ،الہی بخش ،ماما شکنی جنرل ہوزی میر جعفر ،عیدو بنکر ہمارے آستین میں پل تو نہیں رہے ہیں، جن کی شعوری غلطیوں کی وجہ سے ہماری جڑیں خشک ہو رہی ہیں ،نذدیکی ساتھی ہم سے کسی نہ کسی موڑ پر بچھڑتے جارہے ہیں ، وہ مصنوعی اختلاف ، معاشی تنگ دستی ، غیر ضروری سیاسی اختلاف پیدا کرواکر تنظیموں کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں،احتسابی رویہ کو پروان چڑھنے نہیں دیتے خود احتساب سے مبرا ہوجاتے ہیں ، قومی اور اجتماعی سوچ کی جگہ خاندانی فوبیا کی رجہان پیدا کر رہے ہوتے ہیں اس طرح کے اور کئی جرم کا ارتکاب کرکے دوری پیدا کر نے کے باعث بن رہے ہیں ۔ نتیجہ اداروں کو غیر فعال بناکر لوگوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی سے طریقہ سے تحریک یا تنظیم سے لاتعلق رہیں۔