بلوچ نیشنل موومنٹ کی انسانی حقوق کے ادارہ رائٹس ( پانک) نے بلوچستان اور بلوچ قوم پر پیش آنے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل ماہِ جون 2023 کی رپورٹ جاری کردی ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے گزشتہ ماہ جون میں پاکستانی فورسز اور ایجنسیوں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 35 افراد کو غیر قانونی حراست میں لیکر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے ۔ جبکہ جون کے مہینے میں 12 افراد شدید ذہنی اور جسمانی تشدد سے گزرنے کے بعد بازیاب کر لیے گئے ہیں اور جون کے مہینے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں اور مہاجرت کی زندگی گزارنے والے بلوچوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے 9 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں -
پانک کی جاری کردہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ " بلوچستان میں گزشتہ دو عشروں سے جاری ظلم جبر اور اجتماعی سزا کے باعث ہزاروں خاندان ہجرت کرکے مہاجرت کی زندگی گزار نے پر مجبور ہو ئے ہیں۔ لیکن پاکستانی فورسز اور ان سے منسلک مسلح جھتوں کے جبر سے محفوظ نہیں ہیں، انکو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
پانک کے رپورٹ مطابق جون کے مہینے میں ایرانی زیرانتظام بلوچستان میں ایک بلوچ مہاجر ڈاکٹر شاکر مراد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا، صوبہ سندھ کے علاقے خیرپور روہڑی میں بھی بلوچ مہاجر شاہ نواز بگٹی کو بھی ریاستی اداروں سے منسلک لوگوں نے فائرنگ کرکے قتل کیا۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی ایران افغانستان اور بیرون ممالک بلوچ پناہ گزینوں کو قتل کیا گیا ہے -
پانک کی رپورٹ میں جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ "جبری گمشدگیوں کے اجتماعی سزا نے بلوچ سماج میں بے چینی، خوف اور اعصابی بیماریوں کو جنم دیا ہے۔ جس کے باعث بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں ذہنی دباؤ جیسی بیماریوں میں لاتعداد لوگ مبتلا ہیں۔ جبری گمشدگی سے متاثرہ چند افراد نے خودکشی کا انتخاب کرکے موت کو چنا ہے۔ لیکن اس سنگین جرم میں روز بروز اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جن میں شہری، دیہی اور پہاڑی علاقوں میں بسنے والے سب لوگ متاثر ہیں، ہر ماہ کی طرح ماہ جون میں بھی جبری گمشدگیوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں میڈیا بلیک آوٹ، انٹرنیٹ کی بندش اور قدغن کے باعث موثر رابطہ نا ہونے کی وجہ سے متعدد کیسز بروقت رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے ہیں -
پانک رپورٹ میں فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کیے جانے والوں کے واقعات تفصیلی درج ہیں۔ جس میں عبدالقيوم زھری اور کمال خان ولد باھوٹ کو دیگر دو افراد کے ساتھ گزشتہ سال سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلے میں قتل کرکے انکے لاش پھینکے تھے اور انہیں گمنام قرار دیگر لاوارث دفن کیا گیا تھا۔ جسکے بارے میں 30 اگست 2021 کو سی ٹی ڈی نے ڈی سی او خضدار کو ایک لیٹر کے زریعے انکے قتل ہونے کی تصدیق کی ہے، سی ٹی ڈی نے اس جرم کا اعتراف کیا ہے۔ جن کا دعویٰ ہے کہ نہ انھیں مقابلے میں مارا گیا ہے اور نہی مذکورہ افراد کو لاوارث قرار دیکر ایدھی کے زریعے دفنا دیا گیا تھا -