دنیائے سیاست میں چند سالوں سے پیش آنے والے حالات و واقعات نے دنیا کی سیاست میں ہلچل و بحرانی کیفیت کو نمایاں کردیا ہے کیونکہ انہی حالات و واقعات نے دنیا کی سپر پاور طاقتوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کردیا ہے۔ امریکہ و چین کے درمیان عسکری،تجارتی، ٹیکنالوجی کا محاذ ہو، روس اور یوکرائن کی کشیدگی سے مغربی ممالک اور روس جبکہ چین اور مغربی ممالک کے تعلقات میں نظر ثانی کا پروگرام ہو، ایران کے ایٹمی پروگرام پر معاشی پابندیاں اور موجودہ دور میں مشرق وسطی میں چین اور امریکہ کی کشیدگی، دنیائے سیاست کے لیے نیک شگون نہیں بلکہ کسی جنگ کا پیش خیمہ ہے۔
ان تمام حالات و واقعات نے نہ صرف عسکری محاذ پر ریاستوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کردیا ہے بلکہ معیشت، سیاست ,تجارت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی انھیں ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کردیا ہے، جس کی وجہ سے دنیا کی معیشت سکڑ رہی ہے اور سکڑتی ہوئی معیشت نے ان ملکوں کے اندرونی حالات کو بھی تباہی کے دہانے لاکھڑا کردیا ہے۔آج دنیا سیاسی و معاشی طور پر بحرانی کیفیت کا منظر پیش کررہی ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا کسی بھی وقت جنگ کے دلدل میں جاسکتی ہے۔
معزز بلوچ عوام!
شاید یہ جنگ ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ ٹیکنالوجی اور تجارت کے ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ ہوگی اور اس جنگ کے اثرات سے دنیا سمیت پورا خطہ متاثر ہوگا اور دنیا کے ملکوں کے درمیان جنگوں کے ساتھ ساتھ معیشت، اور سیاست کو بھی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔ یہ دھچکا دنیا اور خطے کے اندرونی معاملات کو بھی گھمبیر سے گھمبیر تر بنا سکتا ہے۔چین اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات کا مرکز ایشیائی اور مشرق وسطی کا خطہ ہے جہاں کچھ مسائل جیسے تائیوان، ہانگ کانگ، ایغور مسلمان، بحیرہ جنوبی چین اور ٹیکنالوجی کا میدان وجود رکھتے ہیں۔ تائیوان کے مسئلے پر بحیرہ جنوبی چین میں طاقت کا مظاہرہ ہو، ایشیائی خطے میں ہتھیاروں اور میزائلوں کی دوڑ ہو اور عسکری سسٹم میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس شامل کرنے کے پروگرام نے نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں طاقت کے توازن کو تبدیل کردیا ہے۔ اسی بدلتے ہوئے طاقت کے توازن پر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ اب واحد طاقت نہیں بلکہ اب چین بھی ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کی طاقت اور اہلیت رکھتا ہے۔
غیور بلوچ عوام!
دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہورہا ہے اور دونوں طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف نئی صف بندیوں میں مصروف عمل ہیں۔ ایک طرف امریکہ اس خطے میں چین کا راستہ روکنے کے لیے کواڈ اور آکس جیسے اتحاد تشکیل دے رہا ہے اور دوسری طرف انڈیا کے ساتھ مضبوط دفاعی معاہدات کی بنیاد رکھ کر چین کو چیلنج کررہا ہے۔سہ فریقی اتحاد آکس کے متعلق چینی حکام نے سنگین الزامات لگائے ہیں اور اس اتحاد کو ’خطرناک راستے پر گامزن ہونا، عالمی برادری کے خدشات کو نظر انداز کرنا‘ اور یہاں تک کہ ’ہتھیاروں کی نئی دوڑ اور جوہری پھیلاؤ کا خطرہ پیدا کرنا‘ قرار دیا ہے۔ جبکہ چین نے ون بیلٹ ون روٹ جیسے منصوبوں کے ذریعے دنیا کے تمام ملکوں تک رسائی کا منصوبہ پیش کرنے کے علاوہ یورپی ممالک سے اچھے تعلقات استوار کیے تھے۔ اسی وجہ سے فرانس کے صدر نے کہا تھا کہ یورپ امریکہ کا ماتحت نہ بنے جبکہ یورپی کونسل نے اس کی بھرپور حمایت کی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ اور یورپ کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے لیکن یوکرائن پر روسی حملے اور چین کا روسی دفاع نے نیٹو کی اہمیت اور امریکہ یورپ تعلقات کو مضبوط بنایا۔
چین نے مشرق وسطی کے دو اہم حریف سعودی عرب اور ایران کے کشیدہ تعلقات کو ڈگر پر لانے کے لیےثالثی کا کردار ادا کرکے امریکہ کو چیلنج دیا ہے جس پر امریکہ خاموش نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ چین اس خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر چینی کرنسی میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے جو امریکہ کو اشتعال دینے کے لیے کافی ہے اور یہ اشتعال اس خطے کے عوام کے لئے نیک پیغام نہیں ہوگا۔
برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کا یہ بیان کہ سامنے ایک خطرناک دہائی ہے اور بڑھتے ہوئے سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیاری کی ضرورت ہے، مستقبل کا تباہ کن منظر نامہ پیش کررہا ہے۔
عظیم سرزمین کے فرزندو!
جب امریکہ نے اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں افغانستان اور عراق پر دھاوا بولا اور پاکستان جیسے دو غلے اور خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے والے ملک کو اپنے ساتھ ملا کر افغان سرزمین کو تاراج کیا اور وہاں کے عوام کی زندگی اجیرن بنادی تو جلد ہی امریکہ پر یہ راز کھلا کہ اس خطے خاص کر افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجائے پاکستان اسے مزید ہوا دے رہا ہے اور دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ پر ملنے والی امداد کو بلوچ تحریک کو ختم کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے اور امریکہ کے ایف 16 طیاروں کے ڈیزائن چائنا کو فراہم کرکے پیسے بٹور رہا ہے تو امریکہ نے دور ٹرمپ میں پاکستانی امداد بند کردی۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان چین کے ساتھ مل کر OBOR پروجیکٹ کے حصے سی پیک پر کام کررہا تھا اور سی پیک کی تکمیل کے لیے بلوچ سرزمین پر آگ کے شعلے برسا رہا تھا۔اس دوران بلوچ عوام کو نقل مکانی، جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دے رہا تھا۔ چند دن قبل ہی چائنا نے سی پیک کی حفاظت کے لیے پاکستان کو دو بحری جہاز دئیے تھے کیونکہ چائنا کے لیےOBOR پروجیکٹ بہت اہمیت رکھتا ہے اور سی پیک اس پروجیکٹ کا اہم حصہ ہے اور پاکستان کی وفاقی کابینہ کی جانب سے بلوچستان میں مزید فوج کی تعیناتی کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں خونی آپریشنوں کا ایک نیا سلسلہ پھر سے شروع کیا جائے گا۔ جس طرح بلوچ قومی تحریک کے رہنماؤں نے حکمت عملی کی بدولت پاکستان اور چین کی مشترکہ کاوشوں کو ماضی میں ناکام بنایا تھا جس سے مجبور ہو کر چین نے سی پیک کو کراچی اور دیگر شہروں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مستقبل میں بھی یہ کاوشیں ناکام ثابت ہوں گی۔
محراب خان کے وارثو!
اگست 2021 میں اس خطے میں اس صدی کی دوسری ڈرامائی تبدیلی کا آغاز افغانستان سے امریکی انخلاء اور افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے سے ہوئی۔ اس نئی تبدیلی کو کچھ دانشوروں نے پاکستان کے حق میں اور اسے بلوچ قومی تحریک کے مخالف سمجھ کر تجزیہ کرنا شروع کیا۔ ان دانشوروں کےتجزیے میں یہ تاثر ابھرا کہ بلوچ قومی تحریک ایک عوامی تحریک کے بجائے بیرونی ممالک کی حمایت سے چل رہی ہے اور اب افغانستان میں طالبان حکومت آنے سے بلوچ تحریک کا اثر و رسوخ ختم ہوجائے گا، لیکن درحقیقت اس ڈرامائی تبدیلی نے بلوچ قومی تحریک کو کئی گنا زیادہ مضبوط اور توانا بنادیا۔ اسی توانائی کے اثر کو زائل کرنے کے لیے بلوچستان میں پاکستانی دہشتگردی کے واقعات میں بھی تیزی لائی گئی، انسداد دہشت گردی نامی دہشت گرد محکمہ جو فوج کی سربراہی میں کام کرتی ہے کو متحرک کرکے جبری گمشدگیاں اور جعلی مقابلوں کو تیز کردیا گیا۔ ماھل بلوچ کو گھر سے جبری گمشدہ کیا اور تشدد کے ذریعے اسے بلوچ فدائین ظاہر کرکے نام نہاد عدالت سے سزا سنائی گئی جو پاکستانی آرمی کی شکستہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ماھل بلوچ سے قبل حبیبہ پیر جان کو بھی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جبری لاپتہ کرکے اسے بلوچ فدائین ظاہر کیا گیا۔
آزادی کے متوالو!
اس تمام صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی دیوالیہ پن کا شکار پاکستان نہ صرف دنیا کے دیگر ملکوں میں اپنے دوغلے پن کی وجہ سے اپنی حمایت کھوچکا ہے بلکہ اپنے اندرونی مسائل جو پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نظر آرہے ہیں ان کو بھی حل کرنے سے قاصر ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے نویں جائزے کے لیے مزید بیرونی فنڈگ پر اصرار کرنا اور پاکستان کے وزیر خزانہ کا ان شرائط کو قبول نہ کرنے کا بیان پاکستان کے معاشی دیوالیہ پن کو قریب لانے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران کی گرفتاری پر عوامی احتجاج اور انٹرنیٹ کی بندش اور امریکہ کے سابق سفیر برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کا پاکستان کے آرمی چیف کو استعفی کا مشورہ دینا اور پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کا مشورہ پاکستان کے سیاسی بحران کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں برسر اقتدار پی ڈی ایم کا چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف احتجاج اور استعفی دینے کا کہنا جبکہ تین مہینے پہلے نئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے نام کا اعلان نہ صرف عدالتی بحران کی طرف اشارہ ہے بلکہ حکومت اور عدالت کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ثبوت ہے۔ سیاسی، معاشی اور عدالتی بحران مستقبل میں پاکستان کو مزید انتشار کی طرف دھکیل دے گاجو اس خطے میں انتشار کو مزید بڑھاوا دے گا۔
اب بلوچ قوم کے فرزندوں و دختروں کو چاہیے کہ وہ بلوچ قومی تحریک کے ہاتھ مضبوط و توانا کرکے آزادی کے لمحوں کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آج اس خطے کے جعلی سامراج کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہے اور وہ آئی سی یو میں آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس لیے اتحاد و طاقت کا مظاہرہ کرکے اس جعلی سامراج کو اس کے انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ دن دور نہیں جب بلوچ عوام آزادی سے اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہوجائیں گی۔