کل کے بیان کو ایک تنظیم نے اپنی مرضی سے اضافہ کرکے غلط شائع کیا ہے، جبکہ اصل بیان اسکے فیس بُک پیج پر موجود ہے ، ماما قدیر



کوئٹہ جبری لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5084 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیرمین اپنے کابینہ اور ساتھیوں کے ساتھ کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز  وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے  کہا کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنان طلبہ اساتذہ بزرگ بچے خواتین سمیت ہر فرد جو  فکر بلوچ کی حامی ہے ، انکا لاپتہ ہونا کوئی نئی بات  تصور نہیں کی جاتی کیونکہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران جبری اغوا کی وارداتیں اتنی تسلسل اور تیزی کے ساتھ رونما ہو رہیں ہیں کہ اب تک ساٹھ ہزار سے زاہد افراد کی رپورٹ مرتب کی گئی ہیں ۔


 انھوں نے کہاہے کہ بلوچستان کا شاید کوئی گوشہ بچا ہو جہاں کسی بلوچ فرزند کو جبری اغوا نہ کیا گیا ہو جبری لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ کئی سالوں سے کراچی شال اسلام آباد سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ لیکن نتائج بازیابی سے ہٹھ کر مسخ شدہ نعشوں کی انبار  کی صورت میں ملتی ہیں۔ 


انھوں نے کہاکہ فورسز  جبری لاپتہ افراد کی حراستی شہادت کا باقاعدہ آغاز کر رکھا  ہے جو بے دردی اور غیرانسانی تشدد کے ذریعے اسیران کی نعشیں پھینکنے کا گھناونا عمل کر رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ پاوں ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں جسمیں ڈرل کی ہوئی نکالی گئی  آنکھیں ،اور  کان ناک کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ جسے دیکھ کر انسانیت کی سر شرم سے جکھ جاتی ہے۔


 انھوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی گھر ایسا نہیں نہ کوئی   فرزند بچا ہے جو  خفیہ ادروں کی بھینٹ  نہ چڑا ہو۔ 


ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کی اس انسانی المیے پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہوئی ہے۔ بلوچ فرزندوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ لیکن حراستی شہادت کے واقعات نے ان کی امیدوں کا دم گھونٹ دیا ہے۔ اُنھیں سوفیصد یقین ہے کہ انکے پیاروں کی  نعشیں انہیں ملیں گی کیونکہ انہیں دشمن سے یہی توقع ہے۔ اگر کوئی خفیہ اداروں کی عقوبت خانوں سے بچ کر بازیاب ہو جائے تو محض یہ ایک اتفاق ہوگا۔ کیونکہ بہت سے جبری لاپتہ افراد کی مسخ شدہ نعشیں برآمد ہوگئیں ہیں۔ 


ماما قدیر بلوچ نے وضاحت کی کے اسکے کل کے بیان کو ایک تنظیم نے اپنی مرضی سے اضافہ کرکے غلط شائع کیا ہے، جبکہ اصل بیان اسکے فیس بُک پیج پر موجود ہے -

Post a Comment

Previous Post Next Post