بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5060 دن ہوگئے-
اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں شال سے سیاسی اور سماجی کارکنان ابرار بلوچ، وہاب بلوچ، رحیم بلوچ اور دیگر شامل تھے .
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ تاریخ میں وہی لوگ امر ہو جاتے ہیں جو اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کیلئے جیتتے ہیں اور انسانی بقاء کی تکمیل میں اپنی زندگیوں کو گزارتے ہیں، بلوچستان میں حالات روز بروز بدتر ہوتے جا رہے ہیں، بلوچ مائیں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے باہر نکلنے نہیں دیتے انہیں ڈر ہے کہ کہیں وہ جبری لاپتہ نا ہوجائیں یا ماورائے عدالت قتل نا ہوجائیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو شہید کرکے انکی مسخ شدہ نعشیں گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹے گئے ہیں، حیات بلوچ جیسے نوجوان کو انکے والدین کے سامنے فورسز نے سینے پر اٹھارہ گولیاں داغ کر انہیں بیدردی سے شہید کردیا ۔ ریاستی جبر اور استبداد کی تاریخ کالی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ مائیں اپنے بچوں کو ریاستی جبر سہنے کیلئے پال پوس کر بڑا نہیں کرتیں انکی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہتر اور خوشحال زندگی گزاریں -
آخر میں انہوں نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر فوجی آپریشن سے بربریت اور جبری گمشدگیوں کو روکنے کیلئے کردار ادا کریں -