کولواہ: میجر آسمی وفا عرف شاہ داد اور ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، بی ایل ایف


شہدائے کواہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن فرنٹ بی ایل ایف کے ترجمان میجر گہرام بلوچ  نے جاری  بیان میں  کہاہے کہ عالمی و علاقائی منظر نامہ پر اُبھرتی سامراج چین کی جانب سے پاکستان کو مہیا کردہ جاسوس طیارے 11 مئی  2023 کو کولواہ میں تنظیم کے گشتی ٹیم کا رات گئے فضائی نگرانی کرتے رہے جس کے باعث گوریلوں کا گشتی  دستہ مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہوئی۔


 صبح ہوتے ہی جاسوس اور ڈرون طیارے ایک بار پھر انہی علاقوں میں گشت کرنے اور مختلف مقامات پر میزائل داغنے لگے۔ ساتھ میں دشمن فوج ہیلی کاپٹرز کی مدد سے پہاڑی چوٹیوں پر کمانڈوز اتارنے لگی ،اورجنہیں اتارتے ہی بلوچ سرمچاروں نے حملہ کیا۔ یوں سرمچاروں اور قابض پاکستانی فوجی دستوں کے درمیان  ایک طویل جھڑپ شروع ہوئی جس میں تنظیمی ساتھی دشمن کا گھیرا توڑنے میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ دشمن فورسز کے 12 ایس ایس جی کمانڈوز سرمچاروں کے اس حملے میں مارے بھی گئے۔

 

12 مئی کی رات دس بجے کے قریب چند کلو میٹر کے فاصلے پر کمانڈوز کے دوسرے دستے کے ساتھ سرمچاروں کا آمناسامنا ہوا۔ اس دورانیے میں میجر آسمی وفا اپنے دیگر ساتھیوں کو کور دیکر نکالنے میں کامیاب  ہوا۔ لیکن اس کوشش میں وہ خود شہید ہوا۔ شہادت کے وقت اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر میجر آسمی وفا نے کہا تھا کہ ” ہمارے لیے بلوچ سرزمین کی حفاظت، بلوچ قومی بقا اور شہادت سے زیادہ اور کچھ مقدس نہیں“۔


تین دنوں تک جاری رہنے والی ان جھڑپوں میں دشمن فوج کے کرایہ کے اہلکار فضائی برتری اور جدید جنگی سہولیات سے آراستہ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر مفلوج ہوچکے تھے جبکہ بلوچستان کا فرزند میجر آسمی وفا اور دوسرے شہداء جذبہ آزادی اور وطن سے محبت کے باعث بے مثال ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان نچھاور کرکے اپنے باقی ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب رہے۔


دشمن فوج کی میڈیا ونگ آئی ایس پی آر اپنے فوجیوں کی گرتی ہوئی مورال کے سبب بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں مارے  جانے والے فوجیوں کی ہلاکت کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔


میجر آسمی وفا عرف شاہ داد ولد دلوش سکنہ ڈنڈار کولواہ 2012 سے باقاعدہ بی ایل ایف کی صفوں میں شامل ہوا تھا۔ جنگی داؤ پیچ میں اس کی مہارت، بہادری، بلوچ عوام کے ساتھ اچھے روابط رکھنے اور تنظیمی ہمدردوں کے ساتھ انکساری اور ملنساری کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں نیٹ ورک کمانڈر منتخب کیا گیا۔


 پاکستانی قابض فوج نے آسمی وفا کو کمزور کرنے کیلئے اس کے گھروں کو جلایا، اور فیملی ممبران کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناتی رہی، جس کے بعد ان کی فیملی آئی ڈی پیز کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی۔ لیکن وفا کے حوصلے اور ارادے کبھی کمزور نہیں پڑے۔


 آسمی وفا کی استقامت اور قائدانہ صلاحیتوں کے اعتراف میں سال 2022 کو تنظیم کی ریجنل کونسل نے اسے میجر کی ذمہ داریاں سونپ دی۔ وہ اپنی بہادری، بردباری اور عوام سے اچھے روابط کے سبب ایک رول ماڈل سرمچار بن گیا ۔ یاد رہے کہ میجر آسمی وفا عطاشاد ڈگری کالج سے گریجویشن کیا تھا اور  بلوچی زبان میں شاعری کرتا تھا۔


سیٹھ عبدالصمد عرف واجہ دینار ولد محمد رحیم سکنہ تیرتیج آواران 2013 سے بی ایل ایف کا حصہ تھا۔ وطن کا یہ فرزند سیاسی شعور سے لیس تھا جس کی بدولت مختصر مدت میں وہ گوریلا دستے کا لیفٹینٹ منتخب کیا گیا تھا۔


سیکنڈ لیفٹینٹ عارف عرف شکاری ولد علی بخش سکنہ سہر کولواہ نے 2013 میں بی ایل ایف جوائن کیا تھا۔ وہ بہادری اور بردباری میں ایک اہم سرمچار کی حیثیت سے ہمیشہ ساتھیوں کے لیے رول ماڈل رہا ہے۔ غربت اور تنگدستی کے باوجود وہ اپنے گھر اور بچوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کی فکر کرنے کے بجائے تحریک آزادی اور تنظیمی پروگرام کو فوقیت دیتا رہا جو تحریک سے اس کی نظریاتی وابستگی کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جنگی سرگرمیوں کا حصہ رہا ہے۔ ایک دہائی کے دورانیے میں بلوچ قومی تحریک آزادی سے منسلک رہنے کی پاداش میں پاکستانی فورسز نے روزانہ کی بنیاد پر ان کے گھر والوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد سے دوچار کیا۔


سرمچار علی عرف کمک ولد بجار سکنہ پاھُو آواران 2019 سے بی ایل ایف کا باقاعدہ حصہ رہا ہے۔ اس سے قبل وہ تنظیم کا ایک پرجوش حمایتی تھا۔ بچپن سے لیکر اپنی لڑکپن تک پہاڑوں میں پلنے کے باعث وہ پہاڑی راستوں کا ماہر تھا اور ایمرجنسی کی صورت میں جلد سرمچاروں کی مدد کیلئے جلد پہنچ جاتا تھا جس کے باعث اس کا تنظیمی نام کُمک (مدد کرنے والا) پڑ گیا اور وہ اسی نام سے تنظیم میں جانا جاتا تھا۔ وہ اپنے گوریلا دستے میں ایک  اہم سنائپر شوٹر بھی رہا ہے، وہ آواران کے بیشتر علاقوں میں تنظیمی مشن اور جنگی پروگرام کا حصہ رہا ہے۔


سرمچار جاوید عرف عمر جان ولد بدل سکنہ شاپکول کولواہ 2019 سے بی ایل ایف کا سرمچار بن گیا تھا۔آواران، کولواہ سمیت اردگرد کے علاقوں میں تنظیمی جنگی دستوں کا باقاعدہ حصہ رہا ہے۔ یاد رہے شہید عمر جان کا پورا خاندان دشمن فورسز کے وحشیانہ کاروائیوں سے متاثررہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نوجوان سرمچار کے حوصلوں میں کبھی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔


سرمچار شاہ میر عرف سفر خان ولد شکر سکنہ کرکی تجابان تربت 2014 میں بی ایل ایف کے صفوں میں شامل ہوا تھا۔ وہ ایک نہایت محنتی اور جفاکش سرمچار تھے۔ وہ کولواہ، تجابان اور گردو نواح کے کئی علاقوں میں جنگی فرائض سرانجام دے چکا ہے اور دشمن کو کاری ضرب پہنچا چکا ہے۔


 بی ایل ایف شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا یہ عزم دہراتی ہے کہ  بلوچستان کی آزادی کے حصول تک قابض پاکستان کے خلاف جنگ  جاری رہے گی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post