غازی یونیورسٹی میں طالبہ سے جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو نشان عبرت بنایا جائے۔ بساک



 ڈیرہ غازیخان جامعہ میں طلباءو طالبات کے ساتھ ذہنی و جسمانی ہراسگی کے واقعات میں مسلسل اضافہ تشویشناک ہے۔ یہ بات بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری بیان میں کہی ہے ۔ 


انھوں نے کہاہے کہ جامعہ  ڈیرہ غازیخان فزکس ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ نے انتظامیہ کو درخواست دائر کی کہ ان کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ظفر وزیر ، نمبرز اور نوکری کا جھانسہ دے کر بلیک میلنگ کے ذریعے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا ہے۔


 بساک نے کہاہے کہ پروفیسر کی جانب سے طالبہ کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنانا معاشرے کیلئے ایک بدنما داغ ہے  جو شاید سیکڑوں طالبات کی تعلیم کے آگے رکاوٹ بنے گا۔ اس لئے طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسگی کا  معاملہ  انتہائی شرمناک عمل ہے۔ 


 مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ غازی یونیورسٹی جو کہ بلوچ اکثریتی علاقے ڈیرہ غازیخان، راجن پور اور تونسہ میں ہزاروں طلباءو طالبات کے لیے واحد اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے غازی یونیورسٹی پر انتظامیہ سے لے کر پروفیسرز تک ایسا درآمدی ٹولے کو مسلط کیا گیا ہے جو بلوچ معاشرے اور روایات سے نابلد ہے۔ گزشتہ چند سال میں اسی ٹولے نے غازی یونیورسٹی کو ایک درسگاہ کے بجائے ہراسگی کا اڈہ  بنا د یا  ہے۔ طالبات کو نمبرز اور دیگر امتحانی طریقوں کے ذریعے بلیک میل کرکے انہیں جنسی ہراسگی کا نشانہ بنانے کے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ اس سے پہلے کیمسٹری اور زوالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسرز نے اپنے طالبات کو بھی اسی طرح اپنی حوس کا نشانہ بنایا تھا ، لیکن بغیر کسی ایکشن معاملات کو پس پشت ڈالا گیا۔ 


انھوں نے کہاہے کہ دو ماہ پہلے سیکورٹی انچارج کی جانب سے ایک لڑکی کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل درجنوں کی تعداد میں مختلف حیلوں حربوں سے طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں اور اس مرتبہ ہیڈ آف فزکس ڈیپارٹمنٹ نے طالبہ کو اپنی درندگی اور حوس کا نشانہ بنایا ہے۔ 


مرکزی ترجمان نے  کہا ہے کہ جامعہ  جو کہ ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور استاد روحانی باپ کی طرح اپنے طالبعلموں سے شفقت برتتی ہیں ۔ لیکن اس تعلیمی نظام میں کرپٹ اور حوس کے پجاری انتظامیہ اور پروفیسرز کی جانب سے تعلیمی اداروں اور استاد جیسے معزز پیشے کو بدنام کرکے خوف اور بدنامی کی علامت بنایا جا رہا ہے۔


 انھوں نے کہاہے کہ غازی یونیورسٹی فزکس ڈیپارٹمنٹ کے متاثرہ طالبہ نے دو ماہ پہلے غازی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو یہ معاملہ رپورٹ کیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے معاملے کی تحقیق کےلیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی اور پروفیسر کے چارجز واپس لیے گئے لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کمیٹی نے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی اور پروفیسر تاحال یونیورسٹی میں تعینات ہے ۔ اس سارے معاملے میں دو ماہ گزرنے کے بعد کسی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ طالبہ نے میڈیا کو اس واقعے کے متعلق آگاہ کیا اور خودسوزی کی دھمکی دی ہے ۔ 


انھوں نے کہاہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تحقیقات میں سست روی اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔


 مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا غازی یونیورسٹی جو کہ بلوچ اکثریتی علاقے ڈیرہ جات کی واحد تعلیمی ادارہ ہے۔ غازی یونیورسٹی میں طلباءو طالبات کے ساتھ ذہنی و جسمانی ہراسگی کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں جس کے باعث بلوچ عوام کے اندر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔


انھوں نے کہاہے کہ  ہم غازی یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرہ طالبہ کی درخواست پر فی الفور شفاف تحقیقات کی جائے اور ملوث پروفیسر کو یونیورسٹی سے بے دخل کردیا جائے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں جاری ہراسمنٹ کے خلاف موثر اقدامات اٹھا کر طلباءو طالبات کو ایک پر سکون تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے۔ بصورت دیگر تنظیم کی جانب سے سخت احتجاجی لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post