کچھ دن پہلے ماہل بلوچ کو چوتھی دفعہ ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کیا گیا اور ماہل بلوچ کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کے باجودایک بار پھر پولیس کو پندرہ روز کیلے ریمانڈ پر دیا گیا ہے۔
بلوچستان حکومت اور وزارت داخلہ نے کمیٹی بنا لی ہے جو سترہ مارچ سے بقول ان کے تحقیقات شروع کرے گی۔ یہ بات ان کی اہلخانہ نے پریس کلب میں پریس کانفرنس دوران کہی ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ ماہل بلوچ پر الزامات جھوٹے ہیں اور جھوٹے الزامات پر ماہل بلوچ کے کیس کو طول دی جارہی ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ 17 فروری کی رات کو ہمارے گھرمیں سی ٹی ڈی کی طرف سے چھاپہ مارا گیا تھا۔ اور بچوں سمیت ہمارے گھر کے تمام افراد کو حراست میں لیا گیا، گھر کی تلاشی لینے کے
بعد ہمارے پیسے اور قیمتی اشیاء بھی ساتھ لے گئے۔ پوری رات دہشت میں گزارنے کے بعد جب ہمارے گھر کے تمام افراد کو رہائی دے دی گئی اور ہمارے گھر سے کسی بھی طرح کی کوئی غیر ممنوعہ چیز برآمد نہ ہونے کے باجود ماہل پر خودکش جیکٹ برآمد کرنے کا الزام لگا
کر عدالتی کاروائی کے نام اب بھی پابند سلاسل کیا گیا ہے ۔
انھوں نے پریس کانفرنس دوران کہاہے کہ ایف آئی آر میں سی ٹی ڈی نے میرے بھابھی ماھل بلوچ پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایک خودکش بمبار ہے اور ان کو بارودی مواد کے
ساتھ پارک میں پکڑا گیا ہے جو سراسر ایک جھوٹا الزام ہے اور اسی جھوٹ کے نام پر عدالتی کاروائی چلائی جارہی ہے اور کیس کو طول دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ ہم نے انسانی حقوق کے اداروں کے مدد سے کوئٹہ میں دو بار ماہل کی بازیابی کے لئے دھرنا دیا ہے ۔ دونوں بار پولیس اور وزارت داخلے
کی طرف سے ہمیں ضمانت دی گئی کہ ماہل کو چھوڑ دیا جاۓ گا۔ عدلیہ و قانون پر بھروسہ کرکے اپنا احتجاج ختم کر دیا تھا لیکن ماہل بلوچ کے خلاف ثبوت نہ ہونے کے باجود بار بار پولیس ریمانڈ منظور کیا جارہا ہے اور ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ ماہل کی لئے احتجاج کا راستہ اختیار نہ کریں۔
انھوں نے کہاہے کہ قانون اور عدلیہ پر بھروسہ رکھنے اور تمام قانونی کروائی کو پورا کرنے کہ باوجود درد اور ازیتوں سہنے کے باوجود ہمارے خاندان کو
دھمکانے کا سلسلہ نہیں رکھا ہے اور مجھ سمیت میرے گھر کے مزید دوسرے افراد کو حراست میں لینے کی دھمکیاں دی جارہی ہے ۔ کچھ دن پہلے پولیس ہمیں دھمکیاں دینے ہمارے گھر پر آئی تھیں ۔ جس کی وجہ سے میرے خاندان کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں کہ ہمارےخاندان کے دوسرے افراد کو اغوا نہ کیا جاۓ یا نقصان نہ دیا جاۓ۔
اہلخانہ نے کہاکہ ہمارے والد اور بھائیوں کے بعد ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اور اب ہمارے بابھی کو حراست میں لینے کے بعد گھر دوسرےا فراد کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر ماہل بلوچ کے لئے احتجاج کیا گیا تو دوسرے لوگوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔
عدالت انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہا ہے اور عدالتی کاروائی کے نام پر ماہل بلوچ کو پابند سلاسل کرنا جاری رکھا ہوا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمارے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
انھوں نے کہاہے کہ ہم سیاسی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں بشمول میڈیا سے درخواست کرتے ہیں ماہل بلوچ سمیت جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ہمارا ساتھ دیں اور عدالت و وزارت داخلہ کا ماہل بلوچ کے کیس میں یہی رویہ بر قرار رہا تو ہم پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوں گے۔