بلوچستان کے ضلع کوہلو میں گذشتہ روز سے پاکستان فوج کی آپریشن جاری ہے، جسے پھیلاکر آج صبح کاہان شہر میں بھی فورسز نے زمینی اور فضائی آپریشن کا آغاز کردیا ہے ۔
آج ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کمانڈوز کاہان شہر میں اتارے جارہے ہیں ۔
لاپتہ افراد بارے تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ گذشتہ روز فوجی آپریشن کے دوران لاپتہ کئے گئے چھ افراد کے نام سامنے آگئے تھے مگر اب مزید دو افراد کے نام بھی سامنے آگئے ہیں جنھیں لاپتہ کیا گیا ہے ۔
جس کے مطابق گذشتہ روز بشکیا خان ولد مہران جو ایک کاشتکار ہے، انہیں بیماری کی حالت میں اٹھا کر لے جایا گیا ، جبکہ چھٹیاں گذارنے والے بلوچستان یونیورسٹی میں بی ایس کے طالبعلم عبدالستار ولد ربنواز، کمیونٹی اسکول استاد محمد جاوید ولدرسول بخش، امام مسجد جمال ہان شہر مولوی غلام بخش ولد درا، کاشتکار مغل ولد درا، مزدور موران ولد درا، 80 سالہ بزرگ و گلہ بان لعل ولد میر حمد اور پندرہ سالہ اونٹ چرواہا محمد عظیم ولد غوث بخش شامل ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق گھر گھر چھاپے کے دوران فورسز اہلکاروں نے بار بار یہ بات دھرائی کہ بلوچستان حکومت کے کہنے پر فوجی آپریشن کی جارہی ہے ۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حقیقی معنی میں دیکھا جائے بلوچستان میں حکومتیں ہمیشہ کھٹ پتلیاں رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی ان سے مختلف نہیں ہے ،مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بات وہ کیوں دھرا رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ سب کو معلوم ہے کہ فوجی آپریشن اور بربریت کے فیصلے آج بھی راولپنڈی میں طے پاتے ہیں ۔
دوسری جانب کیچ سے اطلاعات ہیں کہ تمپ کے پہاڑی علاقہ
کُلبر میں سنیچر کی الصبح فورسز کی زمینی آپریشن کا آغا ز کیاگیاہے ،فورسز گاڑیوں اور مقٹرسائیکلوں پر بڑی تعداد میں ان پہاڑوں اور ندی نالوں میں داخل ہوگئی ہیں ۔ اس طرح اپسی کہن کی طرف سے ڈابر نامی ندی میں فورسز داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔ تاہم اب تک کسی قسم کے نقصانات کی اطلاعات نہیں مل پائی ہیں ۔
