بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔ ماما قدیر



بلوچ جبری لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4973 دن مکمل ہوگئے، آج  اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکن فقیر محمد  بلوچ، محمد انور بلوچ اور دیگر سیاسی لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جو سیاسی صورتحال بلوچستان کے ہیں ، اس سے ہم بے خبر نہیں ۔ سال کے بارہ مہینوں کی طرح یہ مہینہ بھی بلوچ قوم کےلئے کافی گراں گزری ہے ۔

انھوں نے کہاکہ  بلوچ ہر وقت اپنے شہیدوں اور جبری لاپتہ افراد کو یاد کرتے آرہے ہیں ، کیونکہ ان کے حوصلہ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ لیکن دشمن کی تشدد میں روز اظافہ ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا ، جیسے کہ پہلے بھی جبری اغوا نما گرفتاری کے بعد ان کے تشدد شدہ نعشیں ویرانوں میں پھینک دیےجاتے ہیں جو جانوروں کے خوراک بن جاتے ہیں۔ جو حال ہی رپورٹ میں چھپی ہے ۔

انھوں نے کہاکہ چند سال پہلے یہ خدشہ ظاہر کی گئی تھی کہ کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں انسانی گوشت پکا کر لوگوں کو کھانے کے لیےدیئے جاتے ہیں،  تو خدشہ یہی ہے کہ  یہ بلوچ فرزندوں کے ہی  ہونگے، کیونکہ وہ انکو تشدد کا نشانہ بناکر ھلاک کردیتے ہیں ۔  جو ہوٹلوں میں خوراک بن جاتے ہیں۔
  جن کو ادارے والے شہید کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں ظلم و جبرپاکستان کر رہی ہیں شایدہی دنیا کے کہیں محکوم پر ہوا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہمیں اچھی طرح خبر ہونی چاہئے کہ بلوچ انصاف اور انسانیت کی خاطر پر امن جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔
تمام بلوچ تشدد ازیت اس لئے سہہ رہے ہیں تاکہ اپنے مستقبل کو خوشحال بناسکیں ۔

انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں فوجی کارروائی کوئی نئی بات نہیں اس سے ہر  ایک واقف ہے ۔ جو بلوچستان کی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔  بلوچستان میں ایسا   علاقہ  نہیں بچا ہے  جہاں فوجی آپریشن نہ ہو۔ 

ماما نے کہاکہ عوام پر فوجی تشدد ہو رہی ہے ، ہر روز یہ ضرور سننے کو ملتا ہے کہ بلوچستان کے وہ علاقے جو آپریشن کے زد میں ہیں۔ ہزاروں بلوچ جبری اغوا کئے گئے ہیں اور ہزاروں بلوچوں کو شہید کیا گیا ہے ۔اور اب بھی  بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post