حق دو تحریک کے ترجمان حفیظ کیازئی اور انکے دیگر ساتھیوں نے جمعے کے روز گوادر پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 26 دسمبر 2022ءسے گوادر شہر میں جو ظلم عوام پر ڈھایاگیا اس کی نظیر نہیں ملتی ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ورنہ 65 دنوں تک بیٹھے ہوئے گوادر دھرنے پر تشدد، کریک ڈاون نہ کیا جاتا بلکہ مولانا ہدایت الرحمن کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عمل کرکے عوامی اہم مسائل کو حل کیا جاتا۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے عام عوام، مزدور، ماہیگیرو کاشتکار کے مسائل کو زبان دی ہے، ان کے حقوق کی بات کی کوئی غیر آئینی مطالبہ نہیں کیا، تمام مطالبات آئین کے مطابق ہونے اور آئینی و جمہوری انداز میں انکے حل کے لیے جدوجہد کرنے والے کو جیل میں بند کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ ایک عوامی رہنما کو کسی دہشت گرد کی طرح پیش کیا جارہا ہے۔ آج اگر مولانا ہدایت الرحمن جیل میں قید ہیں تو کیا بلوچستان سمیت گوادر اور کیچ کے مسائل حل ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمن سمیت حق دو تحریک کے تمام کارکنان پر سیاسی اور انتقامی کیسز ختم کیے جائیں اور حق دو تحریک بلوچستان کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت بلوچستان مولانا ہدایت الرحمن کو جیل میں قید کرکے اپنی ناکامیوں و نااہلی کو چھپانے میں جو ناکام کوشش کررہی ہے وہ چھپ نہیں سکتے۔ بلوچستان حکومت کی نااہلی سے بلوچستان کے وسائل کو لوٹ و بیچ کر اپنی جیبیں بھرنے کی حقیقتوں سے بلوچستان کا ہر بچہ بخوبی واقف ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو پابند سلاسل رکھ کر سب اچھا ہے کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بلوچستان حکومت عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہے۔ بلوچستان حکومت اپنی اخلاقی حیثیت بطور صوبائی ایڈمنسٹریٹر کھوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حق دو تحریک کے دھرنے پر سرکار نے کریک ڈاؤن کیا ہے اس دن سے لیکر آج تک پورے مکران میں اور بالخصوص گوادر اور کیچ میں افراتفری کا ماحول ہے۔ سیاسی سرگرمیوں پر قدغن ہے۔ مسائل پر بات کرنے پر ایف آئی آر درج کی ہے۔ شہر میں دفعہ 144 رائج ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ بحر بلوچ میں ٹرالرز کی بھرمار ہے۔ بارڈر پر بھتہ سسٹم پہلے سے زیادہ عام ہے۔ ڈالر کی طرح روزانہ ٹوکن ریٹ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ چیک پوسٹوں پر پھر سے عوام الناس کی تذلیل کی جارہی ہے۔ پانی، بجلی، صحت کی سہولیات کا حال آج بھی بدتر ہے۔
گوادر اور کیچ میں ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے آمرانہ نظام چلایا جارہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے گوادر اور کیچ میں آئین معطل ہوگیا ہے اور ان دو اضلاع میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہو۔ بلوچستان حکومت کے آمرانہ طرز عمل کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
حکومت بلوچستان نے جو غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے مکران میں حق دو تحریک بلوچستان کے کارکنان کے ساتھ رکھا ہے وہ انسانی حقوق کے پامالی کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن یہاں سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں کیونکہ وہ قطار میں اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم حکومت کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر مولانا ہدایت الرحمن کو جلد رہا نہیں کیا گیا اور کارکنان پر جھوٹے مقدمات ختم نہیں کیے گئے اور حق دو تحریک کے عوامی مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا تو احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جائے گا تو 9 مارچ کو ایک بہت بڑی عوامی ریلی نکالی جائے گی۔ اس کے بعد خواتین کی ریلی، لانگ مارچ، بھوک ہڑتال، جیل بھرو تحریک کے علاوہ ہمارے پاس کئی سیاسی و جمہوری طریقے ہیں کہ جس سے ہم اپنے قائد اور عوام کے لیے بھرپور آواز اٹھائیں گے۔ اگر ہمیں آئینی و سیاسی جدوجہد سے روکنے کی کوشش کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائےگا۔