کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4996 دن ہوگئے



 کوئٹہ  بلوچ جبری لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4996 دن ہوگئے،اظہار یکجہتی کرنے والوں میں چمن سے سیاسی کارکن محمد رمضان اچکزئی خیر محمد کاکڑ اور دیگر طبقہ کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی.

 

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض کی اگر تاریخ پڑھی جائے تو اس میں اس بات کا ذکر ضرور ملتا ہے کہ اپنے مقبوضہ علاقوں میں کس طرح اپنے قبضے کو دوام بخشنے کی مختلف حربے استعمال کرتا ہے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے ان پر تشدد عزت نفص کو مجروع و دیگر اقدام اٹھاتے ہیں۔ بلوچ وطن میں جاری قابض ریاست کی ظالمانہ کاروائیوں میں روز بروز شدت پیدا ہو رہی ہے ہو تو زندگی کے تمام شعبو سے وابستہ افراد سے لیکر ایک عام محنت کش بلوچ پاکستانی فورسز کے ظلم و ستم کے شکنجے میں ہے پاکستانی ریاست کی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہر گزرتے دن کے ساتھ فرزندوں کے عزت نفس کو مجروع کرنے اور ان کے ساتھ زلت امیر رویہ رکھنے کو فرض منصبی سمجھتے ہیں اب یہ سلسلہ ان معزز قابل احترام پیشہ سے وابستہ اساتزہ ڈاکٹر انجینیر وکلا کے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے جس سے انکی بیمانہ ذہنیت کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین کی پر امن جدجہد میں جوق در جوق شمولیت نے بھی غیر فطری ریاست کے پاوں تلے زمین نکال دی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی میڈیا قور دانش سے عاری دانشوروں کے ذریعے یہ پروپگنڈہ کرتا چلا آرہا تا کہ بلوچ سماجی میں عورتوں کو چاردیواری تک محدود کرکے ان پر ظلم جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں مگر موجودہ حالات میں بلوچ خواتین کی قابل دید کردار خالص طور پر انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف عالمی ادارون کی توجہ مبزول کرنے اہم کردار نے ریاست کے تمام تر جھوٹے پروپیگنڈوں کو غلط ثابت کرکے اسے حواس باخطہ کردیا ہے اسے لئے حسب سابق اس نے قوم کا لبادہ اُوڑھے اپنے باجگزاروں کو بلوچ خواتین کی سوچ کو پرامن قومی جدجہد سے غلامی کی جانب منتقل کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے ماما قدیر نے کہا کہ عالمی طاقتوں نے نہ صرف پاکستان کی تمام کرتوتوں سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ ایسے بلوچ جیسے محکوم قوم کی نسل کشی کا لائسنس دے کر قتل عام کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post