اسلام آباد قائداعظم یونیورسٹی میں آئے روز بلوچ طلبہ پر پشتون کونسل کا بزدلانہ حملہ ایک سوچھی سمجھی پالیسی ہے جس سازش کے خلاف بلوچ نوجْوانوں کو اکھٹا ہونا چاہیے۔ یہ بیان
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل سرگودھا کے ترجمان نے اپنے جارہ کردہ بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہی ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ 1947 سے لے کر آج تک بلوچ قوم پر اور ان کے جْوانوں کو روز ایک نئے ظلم کی آغوش میں ان پر تشد کرنا کبھی لاٹھیاں ان پر برسانا کبھی ان کا پروفائلنگ اور تعلیمی اداروں میں حراساں کرنا معمول بن چکاہے ۔
ہم سمجھتے ہیں ان کو تعلیم سے دور رکھنے کا ایک پری پلان سازش ہے جس میں ہر نئے دن کے شروعات کے ساتھ بلوچ قوم پر ایک نہ ایک انداز میں ظلم کی پہاڑ ان پر بلند کیا جاتا ہے، کبھی ریاست کی جانب تو کبھی کسی اور پنجاب پولیس کا داعوا بھول ہاسٹلوں پر چاپہ مارنا اور پٹھانوں،یا سندھی کونسل کو یا کوئی اور غنڈہ گرد تنظیم کو ان پر وار کرنے کی سازش کی جاتی ہے۔ جس کی حالیہ مثال ملک کی کیپیٹل سٹی کے واقعہ کا رونما ہونا اور پشتون کونسل کے غنڈہ گرد لڑکوں کی اپنی سپورٹ کے لیئے کرایہ کے لوگوں کو جمع کرکے یونیورسٹی میں نہتے بلوچ طلبہ پر بزدلانہ حرکت نے اس بات کا واضع ثبوت دیا ہے کہ ریاست ہر روز ایک پالیسی کے تحت بلوچ نوجْوانوں کو تعلیم سے دور رہنے کی سازش کرتا ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ یہ بات حیران کن ہے کہ 2000 کے قریب غنڈے دارالحکومت میں گھس کر ایک یونیورسٹی کی باؤنڈری کے اندر تک پہنچ جائیں اور انٹیلی جنس کو اس کی خبر تک نہ ہو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام آباد پولیس بھی ان کے ساتھ شامل ہے، اگر نہ ہوتے کیا ان کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ ہجوم کیوں اس طرح چھتہ بن کر یونیورسٹی کے باؤنڈری میں گھس جائیں اور بلوچ طلبہ پر تشدد کرکے نکل جائیں اور پولیس کو خبر تک نہ ہو،
انھوں کہاہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی غنڈہ گردی کا واقع رونما ہونے کے باوجود اب بھی اسلام آباد پولیس کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ہم پشتون طلباء کی اس عمل کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ان سے ہم مخاطب ہوکے کہیں گے آخر آپ لوگ کب تک اس سازش کا حصہ بنیں گے ۔اور اس طرح کے پری پلان سازش کے سات مدد گار اور پیش رفت ہوں گے۔ کب تک استعمال ہوتے رہیں گے۔ باچا خان کے پیروکار خود کو سمجھتے ہوئے وہ کیسے ایسے گھنوانے حرکت کرسکتے ہیں۔ بلوچ وہ قوم ہے کہ جس کی خون کی تازگی کی خوشبوہ اب بھی آتا ہے جو انہوں نے درہ بولان میں انگریزوں کے خلاف لڑ کر اپنا خون بہایا ، لیکن انگریزوں کو افغانستان تک پہنچنے نہیں دیا۔ بلوچوں کی بدبختی یہی تھا کہ انہوں نے پشتونوں کو اپنا بھائی سمجھا اور ہر طرح کے الائنس میں وہ ان کے ساتھ تھے چاہیے وہ بلوچستان کی میدان ہو یا پنجاب کے مخلتف جامعات میں لیکن پشتونوں نے بہت جلد اپنی اصلیت دکھائی دی ہے وہ بھی سفید رنگ والے پنجابی نکلے اور وہ بھی ریاست کی صف میں کھڑے ہوکر بلوچ کا دامن چھیرنا چاہتے ہیں ۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچ وہ قوم ہے کہ صدیوں تک اپنا بدلا نہیں بھولتا۔ بلوچ ہر طاقت کا مقابلہ کرسکتا ہے اور بلوچ قوم چاہیے وہ سْیاسی میدان ہو یا جنگی لیکن بلوچ صبر کا دامن لیتا ہے ترجمان نے مخاطب ہوکر اپنے بلوچ بھائیوں سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کی انسرجنسی میں اکھٹا ہوکر مقابلہ کریں تاکہ ہماری اپنے دشمنوں کو بلوچ کا تاریخی حیثیت یاد رہے انہیں بلوچ کا ماضی بھی یاد رہے اگر ہم اتحاد کے دامن پکڑیں۔