انسانی حقوق کے کارکن اور معروف وکیل ایمان زنیب مزاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر بلوچ خاتون کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ آصف غفور دراصل بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی نفری بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا پاکستان فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے بھاری پڑے گا صرف انہیں نہیں بلکہ ہم سب کو، جس طرح بنگلہ دیش میں جہاں ہماری فوج نے ریپ کو “ویپن آف وار” کے طور پر استعمال کیا۔
ایمان نے کہا کہ ہمارا سر آج بھی اس جنگی جرائم کی وجہ سے جھکا ہوا ہے۔ شہنشاہِ اعظم جنرل غفور بلوچستان میں بلوچ خاتون ماہل کو گرفتار کرکے اور اس کے خلاف جعلی ایف آئی آر درج کر کے کونسا سٹریٹجک ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا ہے کہ جو کسی اسٹیج پر یا تو واپس لے لی جائے گی یا منسوخ کر دی جائے گی۔ ہم نے یہ پہلے دیکھا ہے پرامن کارکنوں، طلباء، خواتین اور بزرگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے سے بلوچ عوام میں پاکستان کے خلاف مزید نفرت پیدا ہوتی ہے۔
ایمان زنیب نے کہا ہے کہ اگر تنازعے میں شدت پیدا کرنا مقصد ہے جس کو بظاہر فوج حاصل کرنا چاہتی ہے، تو آصف غفور کے بطور کور کمانڈر کوئٹہ کے عہدہ کے تحت وہ اسے زیادہ تیزی سے انجام دے سکتے ہیں۔ انہیں جس چیز کا احساس نہیں وہ یہ ہے کہ خواتین کے خلاف ان ہتھکنڈوں کا نتیجہ 1971 میں “فتح” کی صورت میں نہیں نکلا تھا اور یقیناً آج بھی نتائج مُختلف نہیں ہوں گے۔