بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے گزشتہ روز سیٹلائیٹ ٹاؤن، کوئٹہ سے ماحل بلوچ نامی بلوچ خاتون کی اغوا نما گرفتاری اور بعد ازاں اس کے خلاف سی ٹی ڈی کی جانب سے جھوٹا مقدمہ درج کرنے اور اسے بی ایل ایف کا خودکش بمبار ظاہر کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو ماحل بلوچ بی ایل ایف کا کوئی سرمچار ہے اور نہ کوئی فدائی ہے۔ علاقہ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق وہ گومازی گاؤں، مکران کے معروف قوم دوست سیاسی شخصیت مرحوم محمدحسین کی بہو، ہیومن رائیٹس کونسل، بلوچستان کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ کی بھابھی ہیں۔ چونکہ
محمد حسین اور بی بی گل کی سرگرمیاں قابض ریاست کو ہضم نہیں ہورہے تھے، اسلئے ایف سی و آرمی کے دستے ان کے گھر پر آئے روز فائرنگ کرتے اور چھاپہ مارتے رہتے تھے۔ پھر 2018 میں ان کے گھروں کو فوج نے جلا ڈالا جس کے بعد یہ خاندان کوئٹہ منتقل ہوئی جہاں ماحل اپنی ساس اور سالیوں کے ساتھ رہتی اور اپنے دو بچیوں کو پڑھاتی تھی۔
انھوں نے کہاہے کہ
سی ٹی ڈی کے اہلکاروں میں اتنی ہمت و جرات کہاں وہ بی ایل ایف کے کسی سرمچار کو گرفتار کریں۔ سی ٹی ڈی کی شہرت فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کو فیک انکاؤنٹرز میں مارنا یا جھوٹے مقدمات درج کرکے فیک کاروائیوں میں ان کی گرفتاری ظاہر کرنا ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ مقبوضہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کی طرح سی ٹی ڈی بھی فوج اور انٹیلیجنس اداروں کا ایک آلہ جبر ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ماورائے قانون کاروائیوں کو قانون کا پوشاک پہناتے اور اپنا کیا دھرا سارا گندھ ان کے منہ پر ملتے ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ
ہم واضح کرتے ہیں کہ نہ تو بی ایل ایف کوئی دہشتگرد تنظیم ہے اور نہ بی ایل ایف سے وابستگی کوئی جرم ہے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ پاکستانی جبری قبضہ سے بلوچستان کی آزادی کیلئے برسرِ پیکار ایک حریت پسند تنظیم ہے جو پاکستانی ریاستی دہشتگردی کی مسلح مزاحمت کرتے ہوئے پاکستانی نوآبادیاتی قبضہ، جبر اور لوٹ و کھسوٹ سے آزادی کی جائز اور قانونی جنگ لڑ رہی ہے۔ تاہم ماحل بلوچ کا بی ایل ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بارے میں سی ٹی ڈی کا دعویٰ جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ان کی گرفتاری بلوچ خواتین کو ڈرانے، بالخصوص ان کے خاندان کو ان کی سیاسی نظریات کی سزا دینے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔