کئی سالوں بلوچستان کے چپے چپے سے لوگوں کو جبری اغواکر کے ٹارچر سیلوں میں ڈالا جا رہاہے۔ماما قدیر

 



بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4940 دن ہو گئے ۔

 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں لسبیلہ سے مٹھا خان لاسی، درمحمد لاسی، نبی بخش لاسی شامل تھے ۔


اظہار یکجہتی کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز  وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا عمل رک گیا ہے،  جبکہ مزید جبری گمشدگیوں اور نعشیں پھینکنے کا عمل تیز تر ہوگیا ہے. مگر اسکے باوجود ہمارے احتجاجی کیمپ نے اخلاقی طور پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔


انھوں نے کہاکہ انسانیت کےلیے اٹھایا جانے والا ہر قدم پر نئی تاریخ رقم کر رہا ہے اور دنیاکو بالآخر اپنی خاموشی توڑنی ہو گی۔  جبر کی تاریخ ایک دن ضرور ختم ہو گی۔ بلوچ قومی پرامن جدوجہد میں جو چیلنجز اس وقت سامنے ہیں ،اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہےکہ اب پرامن جدوجہد اپنےفیز بدل چکی ہے۔


انھوں نے کہاکہ  یہاں جو کیفیت پائی جاتی ہے اس کا مقابلہ کرنا ہوگا ، جس طرح قوم پرستی کے نام پر بلوچستان میں حکومت اور ایجنسیاں خود اپنی ڈیتھاسکواڈ کے ذریعے بلوچ سیاسی ورکروں کو جبری اغوا کر رہے ہیں ، جدوجہد خود سب چیزوں کو نمایاں کر رہا ہے، ہمیشہ ایسے ہتکھنڈوں  کو سمجھنا چاہیے ان کی جوانمردی سے مقابلہ کرنا لازمی ہے ،کیونکہ یہ اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی خاطر اس عمل میں مزید شدت لاتے ہیں۔ 


ماماقدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ نسل کشی کی صورت میں انسانی جنگی جرائم کا مرتکب ریاست پاکستان کی بڑے پیمانے پر اور سنگین جارحیت کھل کر دنیا کے سامنے آ گئی ہے۔  جبری طور پر اغوا کئے گئے بلوچ فرزندوں کو خفیہ اذیت گاہوں میں لے جا کر انسانیت سوز مظالم ڈھائے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں، گلیوں  اور ویرانوں میں پھینکنا روز کامعمول بن گیا ہے۔  انسانیت کو زندہ درگور کرنے کی ایک معمولی سی جھلک کا پردہ چاک ہونے کے بعد اس تشویش کو لے کر نجانے اس طرح کی دیگر کتنی نامعلوم اجتماعی قبریں مکران، رِخشان، لسبیلہ، ڈیرہ بگٹی، اور خضدار سمیت دیگر علاقوں میں وجود رکھتی ہیں۔ 


انھوں نے کہاکہ ماس کلنگ کے نتیجے میں انسانیت کو لرزہ دینے والی اس مارو،پھینکو اور دفن کر دو  کی وحشیانہ کارستانی کو دیکھ کر گذشتہ کئی سالوں بلوچستان کے  چپے چپے سے لوگوں کو  جبری اغواکر کے ٹارچر سیلوں میں ذالے جا رہےہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post