بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے رہائی کے بعد عبدالحفیظ زہری پر گھر جاتے ہوۓ حملے کو ریاستی انصاف پر مبنی نظام کے منہ پر زور دار طمانچہ قرار دیتےہوئے کہا کہ کسی بھی جمہوری اور تہذیب یافتہ ریاست میں عدالتیں انصاف کے سب سے بڑے اعلی ادارے ہوتے ہیں اور ان کے حکامات کی خلاف ورزی ریاست کے خلاف بغاوت کے مترادف سمجھی جاتی ہے ۔
مگر پاکستان میں نسلی تعصب کی بنیاد پر بلوچوں کو عدالتی حکامات کے باوجود بھی جبر اور نا انصافی کا بدترین سامنا ہے۔ جنہیں عدالت سے رہا ہونے کے بعد ہی ریاستی ادارے حملے کا نشانہ بناتے ہوۓ اغواہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جس سے ان اداروں کے سامنے ریاستی انصاف پر بنی نظام کی حیثیت واضح ہورہی ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ سندھ حکومت اور سندھ ہائی کورٹ دن دہاڑے ہونے والے اس ظلم اور جبر کے خلاف ایکشن لیں ورنہ انہیں بھی اس جبر میں شریک جرم سمجھا جاۓ گا۔
ترجمان نے کہا کہ کسی بھی ریاست میں یہ فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہوتا ہے کہ کون مجرم ہے اور کون بے قصور، مگر پاکستان میں بلوچوں کے معاملے میں انصاف کا نظام مکمل طور پر الٹا ہے، چاہیں اگر عدالتیں کسی کو بے قصور ثابت کر کے چھوڑ بھی دیں ، تو سیکورٹی ادارے اپنی طرف سے فیصلہ کر کے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے ہیں ،اغواء کرتے ہیں اور مختلف جبر اور ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔
ترجمان نے کہاہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ کر ے کہ جرم ثابت کس نے اور کہاں کرنا ہے، کیا بلوچوں کیلئے عدالتوں کے دروازے بند ہیں اور ان کا فیصلہ زندانوں میں ہوتا ہے کہ کون مجرم ہے اور کون بےقصور؟ عبدالحفیظ زہری پر حملہ ایک بار پھر یہ ثابت کر رہی ہے کہ بلوچستان اور بلوچوں کے معاملے میں پاکستان کے تمام ادارے ایک ہی سوچ پر گامزن ہیں جن کیلئے بلوچوں کے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ۔
کوئی ریاست اس طرح نہیں چلتی جہاں آپ ایک قوم کونسی بنیادوں پر دن دہاڑے ظلم اور جبر کا نشانہ بنائیں اور پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ ایسے جبر وقتی طور پر شاید کچھ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کریں ، مگر ایسے مظالم کا نتیجہ بڑے انقلابات کی صورت میں ابھرتا ہے ، اگر بلوچوں کے خلاف مظالم کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو لوگوں کا قوت برداشت ایک دن جواب دے گا۔
ترجمان نے پاکستانی عدالتی نظام پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور عدالتیں اگر بلوچوں کے معاملے میں بے بس ہیں اور انہیں سیکورٹی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ نا چاہتے ہیں، تو وہ پاکستان کے آئین میں ترامیم کر کے اپنے لیے آسانیاں پیدا کر یں، جہاں بلوچوں کے زندگی اور موت ، جرم اور سز اسب کا فیصلہ ریاست کے خفیہ اور سیکورٹی اداروں کو کرنا ہے تا کہ کل کو کوئی بلوچ انصاف کیلئے ان عدالتوں کے دروازے نہ کٹکٹا ئیں ۔
انھوں نے کہاہے کہ ایک طرف ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کر کے انہیں اذیت ناک سزا دی جا رہی ہے اور دوسری جانب اسی عدالت سے اگر کسی کی رہائی ممکن ہو پاتی ہے ، تو دن دہاڑے ان پر حملہ ہوتا ہے اور کسی بھی حکومت اور عدالت میں یہ قوت نہیں کہ وہ ان حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر یں ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی عبدالحفیظ زہری پر ہونے والے حملے کی واضح تحقیقات، خاندان کی حفاظت اور سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔