پتھر نما انسانوں کی بستی میں رہتی تھی - تحریر سمیر جیئند بلوچ



میں ایک درد مند بلوچ بدنصیب ماں تھی  اور اور اپنے سات  لخت جگروں کے ساتھ گزشتہ چار سالوں   سے  بارکھان حاجی کوٹ میں درندہ صفت سردار عبدالرحمان کھیتران نامی وحشی  کے نجی جیل میں قید تھی  ۔ یہ ہمیں بھی معلوم نہیں کہ ہم  کن ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے  تھے ؟ 


مگر جہاں میں قید تھی سوچ رہی تھی کہ ظالم اور درندے وحشی اور جابر صرف  یہیں چاردیواری کی اندر رہتے ہیں،  اگر میں کسی طرح اپنی درد فریاد  ان چار دیواروں سے باہر پہنچا سکوں تو نہ صرف ہماری  خاندان کے  آٹھ افراد  بلکہ دیگر قیدی بھی آزاد ہونگے   مگر مجھے کیا معلوم باہر جانے والی  آواز  انسانوں سے نہیں بلکہ پتھر نما انسانوں کے کانوں ٹکرا جائے گی۔   جہاں  سننے بولنے  والے بھرے  گونگے اور بے حس ہوچکے ہیں ، وہ خود تقسیم کا شکار ہیں کوئی سرکاری ہے تو کوئی غیر سرکاری  کوئی پارلیمان پرست ہے تو کوئی آزادی پسند کوئی پیٹ پرست  بلوچ ہے تو کوئی پختون ، سندھی،  پنجابی ،کوئی مسلمان تو کوئی  غیر مسلم  ، کی پگڈنڈیوں کے آر پار ڈیڑھ انچ کی مسجدوں 

،ذگرخانوں ،مندروں اور گرجاگھروں  میں رہتے ہیں ، کسی کے ہاتھ کا  کاٹا حلال ہے تو کسی کا حرام ،  الغرض یہی تقسیم ان کی خاموشی اور بے حسی کی باعث بن کر مجھے میری دولخت جگر نوجوان بیٹوں سمیت نگل لیا  ۔

  میں گزشتہ چار سال سے جہد کر رہی تھی کہ اپنی درد سے بھری  آواز چاردیواری کے باہر کسی طرح  پہنچا سکوں  تو ہماری زندگیاں بچ جائیں گی ، آواز باہر پہنچانے میں کامیاب رہی ، بدقسمتی سے فیڈ بیک میں  چاردیواری کے باہر رہنے والوں کا صرف  بھانڈا پھوٹا  کہ وہ کتنے پانی میں ہیں  اور کتنی بلوچیت و انسانیت کے قریب ہیں ۔ 


 مجھے یاد ہے اس سے پہلے بھی کئی بلوچ مائیں چیختی تھیں کہ قابض ریاستی ادارے فورسز ان کے مقامی کارندے ڈیتھ اسکوائڈ اور انکے بنائے ہوئے سردار نواب  خواتین بچوں کو اغوا کرکے لاپتہ کرتے اور انکی عزتوں سے کھیلتے ہیں،  بدقسمتی سے میری طرح   ان کی سنوائی بھی کہیں نہیں ہوتی تھی  ، یہاں خیال یہی آتی  تھی کہ چونکہ اغوا کار قاتل  سرکاری ہیں  ، عدالتیں سرکاری  ، حکومتیں بھی انکی ہیں تو وہ کیوں  عام لوگوں خصوصا خواتین بچوں کو  ا نصاف فراہم کرنے کیلے اپنے چیلوں کی سرزنش کریں گے ۔ 


مگر دل میں درد اس وقت اٹھی  جو بلوچیت ننگ ناموس کے دعویدار ہیں ، دو مارچ کو مونچھیں تیل لگاکر ، شلواریں بڑی بڑی پہن کر ، سر پر پگڑی رکھ کر، ماچکے بلوچانی ترانہ،  کے بجتے  احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ 


بلوچ حقوق کے دعویدار ہیں بلوچ ننگ ناموس کے نام پر تنظیمیں پارٹیاں ، ادارے ، بنائے گئے ہیں، 

وہ کیوں خاموش ہیں ؟ ماضی کو بھول جائیں حال پر نظریں دوڑائیں کیا زرینہ مری کیلے گذشتہ اٹھارہ سالوں سے بلوچ قوم نے  موثر آواز بلند کی ؟  ، گلناز شہید ہوئیں کیا ہوا ، ملک ناز معصوم بچی کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی کیا  قوم بلوچ نے آواز اٹھائی ۔ کوہلو کاہان ،مشکے چٹوک ، حاجی پیر کیلکور ، گچک ،آواران وہلی، خاران  لجے ،قلات شور پارود  الغرض بلوچستان کے چپے چپے میں  سینکڑوں ہزاروں  معصوم خواتین وحضرات اور بچوں طالب علموں چرواہوں شہریوں کو پاکستانی فوج نے   ہیلی کاپٹروں کے زریعے موت کے گھاٹ اتاردیا ، کیا بحیثیت   بلوچ  قوم قومی سطح پر  دل موم ہوا یا نہیں ۔؟ 


اس کے علاوہ آج بھی  سینکڑوں بلوچ  خواتین فورسز اور سرداروں کے ہاں جنسی حوس کا نشانہ بن رہی ہیں ، کیا ایک ساتھ بلوچستان کے ہر کونے سے ہر مکتب فکر کے لوگوں نے بلوچ قوم ناطے ایک زبان ہوکر ظلم کے ہاتھ مروڑنا درکنار روکنے کا مطالبہ کیا ۔؟ یقینا جواب نفی میں ملے گا ۔ 


حالیہ ایک  ہفتے دوران رشیدہ نامی ہوا کی بیٹی مہ بچوں سمیت پاکستانی قابض فورسز کے حوس کا نشانہ بنی،  کیا بلوچ متحد ہوکر ایک ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کی کوشش کیں؟ اگر بدقسمتی سے جواب نفی میں ملتا ہے،  تو سمجھ لوکہ  یہی وجہ ہے کہ دشمن نے بلوچ قوم کی  نااتفاقی سے فائدہ اٹھاکر رشیدہ کے بعد  تیسرے دن ماھل کو نشانہ بناکر انھیں انکے  خاندان سمیت بے دردی سے بلوچ چادر چاردیواری کا خیال رکھے بغیر اندھیرے میں گھر سے اٹھاکر انکی  عزت تار تار کرنے لگی۔  وہ بھی یہی سمجھ کر کہ ایک مخصوصا حلقہ ہی ایک دوروز بیان بازی اور چند ریلیاں نکال کر  پھر بھول جائیں گے کہ ہماری بیٹی اور ماں کے ساتھ  کیا کھیل کھیلا  گیا تھا ۔ عزت لٹانے بعد  وہ نکل آئیں تو ہر گروہ کے افراد بغلیں بجانا شروع کردیں  گے کہ یہ ہماری محنت تھی،  جس کی وجہ سے وہ نکل پائیں ۔ یہاں  کسی کو اپنی کمزوری دکھائی نہیں دیتا اور  نہیں یہ خیال  آتا کہ  آخر اس کی عزت تار تار کس وجہ سے ہوئی تھی  ، کیا اسکے واپس آنے پر ہم اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس لیکر  دے سکتے ہیں ۔؟ یہ کوئی نہیں سوچتا ۔ اور سوچنے کے وقت بے حس ہوجاتے ہیں ۔ 


بے حسی کی انتہا یہ کہ میں بحیثت ایک بلوچ ماں دس دن قبل قرآن پاک جھولی میں اٹھاکر فریاد کرتی رہی کہ ہم اپنے خاندان کے ساتھ وحشی درندہ سرکاری  سردار کے ہاں قید ہیں ،ہماری عزت ہر دن و رات تار تار کی جاتی ہے ، ہماری زندگیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ہماری آواز بن کر ہمیں قید سے چھڑائیں ،اور یہ بھی روئی تھی کہ اس ویڈیو کے شائع ہونے کے بعد ہماری زندگیاں اور ہتھیلی پر رکھی جائیں گی  ، ہمیں بچائیں ۔ مگر کیا ہوا ؟  بحیثت بلوچ کہیں سے آواز نہیں اٹھی  ،البتہ قبیلہ کے بنیاد پر کچھ مری نکلے احتجا ج کیا ، مگر وحشی کھیتران کا چند لوگوں کے احتجاج اور ریلی تقریروں پر  ایک بال  بھی بھیگا  نہیں ہوا   اور نتیجہ اس خبر کی شکل میں سامنے آگیا ۔


بلوچستان اسمبلی کے نام نہاد وزیر  وحشی درندہ  سردار عبد الرحمن کھیتران کے نجی جیل میں قید خان محمد مری کے دو بیٹے اور اس کی اہلیہ کو بےدردی سے قتل کرکے نعشیں کنویں میں پھینک دی گئی ہیں  ۔


یہ بھی لکھا جائے گا کہ کچھ ماہ قبل خان محمد مری کی اہلیہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر چھاگئی  جس میں وہ قرآن پاک کا واسطہ دے کر  دشمن ریاست اور خصوصا  بلوچ قوم سے اپنی ننگ ناموس بچانے   کی اپیل کررہی تھیں کہ میں اپنی بچوں سمیت 2019 سے جرم ناکردہ کی پاداشت میں   عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں قید ہوں ،اس میں میری ایک جوان بیٹی بھی ہے ، جس کے ساتھ سردار کے سیکورٹی گارڈز جنسی زیادتی کر رہے ہیں اور بیٹوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں،  ہمیں خوف ہے کہ سردار ہمیں  قتل نہ کردیں ہمیں بچائیں ایک ہوکر آواز اٹھائیں ۔ 


  آپ یہ بھی لکھیں گے کہ دو دن قبل خان محمد کی اہلیہ اور ان کے دو بیٹوں کو بےدردی سے قتل کرکے کنویں میں پھینک دیاگیا  ، لہذا ان کے  گھر کے 5 افراد اب بھی سردار کھیتران کے نجی جیل میں ہیں انھیں آزاد کیاجائے  ۔ 


اس واقع کے علاوہ آپ ماضی پر بھی نظر ڈالیں گے کہ

ا س سے پہلے بارکھان کے مقامی صحافی انور کھیتران کو ایک خبر شائع کرنے کی پاداشت میں مزکورہ  درندہ صفت کھیتران نامی وحشی سردار نے قتل کروادیا تھا ۔ 


انور کھیتران کے ساتھ ظلم پر بلوچ قوم اور  لوگوں نے رد عمل  نہیں دکھایا  تھا ۔ 


سردار کھیتران نے خان محمد مری کے گھر سے ان کی پوری خاندان کو زبردستی  اٹھاکر   قید ی بناکر نجی جیل میں پھینکر ان پر  ظلم و بربریت کی وہ مثال قائم کردیں جس کی نظیر تقریبا بلوچستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔


فریادی انصاف کی اپیل کس سے کریں؟

اس دیس ناپرسان میں انصاف کون فراہم کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ چند دن بعد یہ ظلم کی داستا   بھی بھول جائیں گے ۔ کیوں کہ اس وقت اور درناک خبریں جنم لیں گے ۔ 


پھر ہواکی بیٹیاں بیٹے  سرکاری زندانوں اور انکے کارندوں کے نجی جیلوں کا زینت بنیں گے ،دشمن بلاخوف ان سے اپنا جنسی اور ذہنی حوس  پورا کرنے لگیں گے  ۔ 

کسی ازیت خانے سے اور بلوچ ماں گراناز بن کر قرآن پاک ،بلوچیت

 ،اسلام،  مسلمانیت اور انسانیت کا واسط رو رو کر دیں گی  کہ ہماری زندگیاں خطرے میں ہیں ،اگر آپ پھر یہ فریاد سن کر ایک جٹھ ہوکر  مٹھی نہ بنے تو  آپ پھر  اس طرح پتھر بن کر سنی ان سنی کردیں گے،  نتیجہ  یہی نکلے گا نئے ماھل رشیدہ ،زرینہ دشمن کے حوس کا نشانہ بننے  لگیں گے  اور گراناز اپنے لخت جگروں سمیت کسی سردار کے نجی جیل میں ازیت سہتے سہتے   گولیاں کا نشانہ بن کر  کسی اور کنویں میں پھینک دیئے جائیں گے ۔  


Post a Comment

Previous Post Next Post