بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مسافر بس کے پل سے گرنے اور آگ لگنے کے باعث 41 افراد کی ہلاکت پر آج بس مالکان اور ڈرائیورکے خلاف اقدام قتل، غفلت، دباؤ اور غیرذمہ دارانہ ڈرائیونگ کی دفعات کے تحت پولیس تھانہ بیلہ میں درج کر لیا گیا ہے۔
ایس ایچ او بیلہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں ایک زخمی سلیم احمد کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’گاڑی تکنیکی خرابی کے باعث ہچکولے کھا رہی تھی، ڈرائیور وقفے وقفے سے بریک لگا رہا تھا، سواریوں نے گاڑی روک کر ٹھیک کرنے کا کہا تو اس نے کہا کہ میں مالکان سے رابطہ کرتا ہوں۔‘
زخمی مسافر سلیم نے مزید بتایا کہ ’ڈرائیورگاڑی سے اترا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر سیٹ پر بیٹھ کے بتایا کہ مالکان نے ہدایت کی ہے کہ سفر جاری رکھو، گاڑی کی خرابی کراچی میں ٹھیک کریں گے۔‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پرایک وائس مسیج بھی وائرل ہوا ہے، جو مبینہ طور پر بس میں سوار منگیچر کے رہائشی مدثر لانگو کی ہے، جس میں وہ ڈرائیور سے بس کو تیز چلانے کی شکایت کر رہے ہیں۔
’گاڑی انتہائی تیز رفتاری سے چل رہی ہے، ڈرائیور نہ ٹرالر دیکھ رہا ہے نہ موڑ، بس اللہ خیرسے پہنچائے‘ یہ میسج انہوں نے اپنے کسی دوست کو بھیجا تھا۔
کراچی میں پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ طارق نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ گذشتہ روز لائی جانے والی 38 لاشوں سے ڈی این اے سیمپل حاصل کر لیے گئے ہیں، جنہیں کراچی یونیورسٹی لیبارٹری پہنچا دیا گیا ہے۔
مقدمے کے مطابق بس حادثے میں جانی نقصان اس وجہ سے زیادہ ہوا کہ بس پل سے ٹکرا کر الٹی کر گری اور کسی مسافرکو نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔ گرنے کے بعد اس میں آگ بھڑک اٹھی جو مقامی افراد کے مطابق دو گھنٹے تک جلتی رہی۔
مقدمے میں مزید بتایا گیا ہے کہ مذکورہ گاڑی کی سپیڈ آن لائن بذریعہ ٹریکر چیک کرنے والا سسٹم مالکان نے بند کیا ہوا تھا۔
قبل ازیں 25 جنوری کو سپرانٹینڈنٹ پولیس کوسٹل ہائی وے بلوچستان نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں بس ٹرانسپورٹ مالکان پر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل لے جانے کی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
نوٹیفکیشن میں اس سمگلنگ کو انسانی جانیں خطرے میں ڈالنے کے مترادف کہا گیا تھا۔