وی بی ایم پی کی رپورٹس کے مطابق 2001 سے لیکر اب تک 55 ہزار سے زائد بلوچ سیاسی کارکن جبری کارکن لاپتہ ہیں، ماما


بلوچ جبری لاپتہ افراد شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4910 دن ہو گئے ہیں.


 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں شال سے عبدالجبار بلوچ نور احمد بلوچ سمیت  ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


 اس موقع پر وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے نوٹس میں انتہائی ضروری چیزیں لانا چاہتے ہیں جو آپ کے رہنمائی میں معاون ثابت ہوں گے۔


انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا مسلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے اور گمشدگی کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ساری ہے ۔


انھوں نے کہاکہ  جبری گمشدگی افراد کے لواحقین اور وی بی ایم پی کے تنظیم کے رپورٹس کے مطابق 2001 سے لیکر اب تک 55 ہزار سے زائد بلوچ سیاسی کارکن جبری کارکن لاپتہ ہیں ، جو کہ خفیہ اداروں کی حراست میں اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔

ان میں سے ہزاروں بلوچ ماورائے قانون شہید کر دیے گئے ہیں ۔


ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ 2011 میں پاکستانی سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے  مسئلے کا نوٹس لیا لیکن بار بار سماعتوں کے باوجود صرف ایک گمشدہ فرد بازیاب نہ ہوسکا ،  بلکہ سپریم کورٹ بھی پاکستانی حکمرانوں کی ایما پر گمشدگی میں مزید شدت لانے کا باعث بنی ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ  سپریم کورٹ کی سماعت محض وقت کا ضائع  اور میڈیا کا شوشہ ہی تھا ۔


 انھوں نےکہاکہ  سپریم کورٹ بھی پاکستانی حکمرانوں کی ایما پر گمشدہ افراد کے لواحقین کو تسلی دے رہا تھا یا پھر سپریم کورٹ خود ان با اثر اداروں کے سامنے بے بس تھا ، دونوں صورتوں میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر بہتری کی کوئی امید نہیں تھی،  سپریم کورٹ آف پاکستان جبری لاپتہ افراد کی بازیابی میں وارننگ کی حد تک محدود تھا ، حالانکہ کورٹ نے ایف سی کو مدت دی تھی کہ وہ اتنے دنوں میں لاپتہ افراد کو پیش کرئے لیکن خفیہ ایجنسیاں اور ایف سی کورٹ کی وارننگ کی کوئی پرواہ کئے بغیر مزید افراد کو جبری اغوا کر کے مسخ شدہ نعشیں پھینکتے  رہے جو اب بھی ہنوز جاری ہے ۔


 انھوں نے کہاکہ جس طرح انڈونیشیاں میں مشرقی تیمور کے مسئلے پر کورٹ کے فیصلوں کو رد کرتے ہوئے مشرقی تیمور کے لوگوں کو اغوا گمشدہ کر کے انہیں قتل کیا جاتا رہا ، بلوچستان میں بھی یہی صورت حال ہے جس طرح مشرقی تیمور میں قابض کی ایجنسیاں بے لگام تھے اسی طرح بلوچستان میں بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ظلم کی ہولی  کھیلی جارہی ہے

Post a Comment

Previous Post Next Post