شال: سانحہ زیارت کے بعد جہاں ریاستی مظالم کے خلاف عوامی مزاحمت میں اضافہ ہوا وہاں پاکستان کی جارحیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔خطے کی صورتحال میں نمایاں تبدلیاں ہوئی ہیں اور پاکستان کی معشیت زبوں حالی کا شکار ہے، ہمیں ان حالات کے تحت اپنی تنظیم اور تحریک کی سطح پر حالات سے ہم آہنگ فیصلے کرنے ہوں گے۔ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے رواں مدت کے لیے پارٹی کے دوسرے مرکزی کمیٹی کے اجلاس سےخطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معشیت تباہی کے دہانے پر ہے اور اسے اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے ڈالرز اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا سامنا ہے جس سے ریاست پاکستان کے مختلف شعبہ جات بری طرح متاثر ہوچکے ہیں ۔اس بحران سے نکلنے کے لیے وہ بلوچ وسائل کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ، جسے روکنے کے لیے ہمیں اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچستان میں خودکشی کے بڑھتے رجحان پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی حالات کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں خودکشیاں کر رہے ہیں۔بلوچستان میں لوگوں کی بڑی تعداد نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوچکی ہے جبکہ بلوچستان میں نفسیاتی معالج کی کمی ہے۔
انھوں نے کہاکہ عالمی معیار کے مطابق ہر ہزار نفوس کے لیے ایک نفسیاتی معالج کا ہونا لازمی ہے، جبکہ بلوچستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے بھی ایک معالج دستیاب نہیں۔
پورے بلوچستان میں تین چار ڈاکٹرز ہیں جن میں ایک تربت اور باقی شال میں بیٹھے ہیں جہاں عام لوگوں کی کوئی رسائی نہیں۔ہمیں اس سلسلے میں آگاہی مہم چلانے کے لیے اپنے وسائل اور اہلیت کا جائزہ لیتے ہوئے کردار ادا کرنا چاہیے۔نوجوانوں کو اپنے عارضی غم سے چھٹکارہ کے لیے اپنی زندگیاں ختم نہیں کرنی چاہئیں۔ہمارے غم اور مشکلات عارضی ہیں جو یقینی طور پر ختم ہوں گے۔
انھوں نے کہا سب سے اہم یہ ہے کہ ہمیں اپنے صفوں میں اتحاد و یکجہتی قائم رکھنی ہے۔ایف بی ایم اور بی آر پی کے رہنماؤں نے ہمیں اشتراک عمل کے لیے مثبت ردعمل دیا ہے ، جس پر ہم اپنے روابط کو مزید بہتر بنائیں گے۔
اسی طرح ہمیں ہم خیال پشتون اور سندھی جماعتوں کے ساتھ بھی مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ صرف بلوچ نہیں بلکہ دیگر اقوام بھی پاکستان کے ریاستی جبر کا شکار ہیں۔