بانک کریمہ کی دوسری برسی پر آن لائن پروگرام علاوہ بی این ایم کی طرف سے مختلف مقامات پر پروگراموں کا انعقاد کیاگیا

 شال : شہیدد بانک کریمہ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلے بی این ایم کی طرف سے آنلائن پروگرام کا انعقاد کیا گیا،  جس سے بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ، سابق چیئرمین خلیل بلوچ، سینئر وائس چیئرمین بابل لطیف، خارجہ سیکریٹری حمل حیدر، سینئر جوائنٹ سیکریٹری کمال بلوچ اور ایچ آر سی بی کے کوارڈینیٹر تاج بلوچ نے خطاب کیا۔



بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم نے کہا کہ  شہید بانک کریمہ بلوچ ایک سیاسی خاندان میں جنمیں لیکن انھوں نے اپنی وراثت کو بہتر طریقے سے آگے بڑھائی۔


انھوں نے کہاکہ بانک کی  تربیت اور نظریاتی آبیاری  میں شہید ڈاکٹر خالد اور استاد واحد کمبر جیسی شخصیات کا  نمایاں کردار رہا ہے ، لیکن انھوں نے آگے چل کر اپنی صلاحیتوں سے بلوچ قوم میں اپنے لئے ایک معتبر اور منفرد مقام پیدا کی۔


انھیں انکی  زندگی ہی میں لمہ (مادر / ماں) کی خطاب مل چکی تھی جو بڑا  اعزاز ہے۔


انھوں نے کہاکہ ہم آج انھیں اس لئے یاد نہیں کرتے کہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں بلکہ وہ اپنا مقام اپنی زندگی میں ہی  بنا چکی تھیں ،آج ہم انھیں اس لیے زیادہ یاد کرتے ہیں کہ ہم بتا سکیں کہ ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔


انھوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست بلوچ قوم کے شہداء کو قتل کرنے کے بعد بھی  ان کی قبروں سے خوفزدہ ہیں۔


ڈاکٹر نے کہاکہ شہید اکبر خان بگٹی کی قبر میں ایک تالہ لگی تابوت دفن کی گئی،  جبکہ 14 سال بعد شہید بانک کریمہ کی میت کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا گیا اور  ان کی شہادت کے دوسال گزرنے کے بعد بھی ان کی قبر کی تعمیر نہیں کرنی دی جا رہی ہے ، جو ریاست پاکستان کے حکام کی نفسیاتی شکست اور اخلاقی پستی کو ظاہر کرتی ہے۔


ڈاکٹر  نے کہا کہ شہداء کی شہادت ہمیں کمزور نہیں کرتیں ، بلکہ ان سے ہمیں مزید توانائی اور ہمت ملتی ہے ، جس طرح شہید بالاچ اور شہید غلام محمد کی شہادت کے بعد ہمارے عزم توانا ہوئے شہید بانک کریمہ کی شہادت نے ہمیں اس سے زیادہ توانائی بخشی اور ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ان کے مقصد کی تکمیل کے لیے اسی عزم کے ساتھ جہدوجہد کرتے رہیں گے۔

 

بی این ایم کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ان کی زندگی میں ہمیں کبھی کبھار یہ لگتا تھا  کہ شاید گفت و شنید میں ان کی آواز بلند ہے، یا وہ اپنی عمر اور ان ذمہ داریوں کی وجہ سے کبھی سخت تنقید کرتے ہیں ،لیکن آج ہم یہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایک مضبوط  رہنمایانہ کردار کی مالکہ تھیں۔


جب سخت حالات میں دشوار گزار سفر کی ضرورت پیش آئی تو وہ کسی سے پیچھے نہ رہیں اور انھوں نے ہر وہ جگہ اپنی موجودگی یقینی بنائی جہاں ان کی ضرورت تھی۔فیصلہ سازی میں بھی ان کی نمایاں کردار ہوتی تھی۔


بی این ایم کے جونیئر وائس چیئرمین بابل لطیف بلوچ نے کہاکہ  بانک کریمہ سمیت دیگر شہداء نے بلوچ قوم کی آزادی کے لیے اپنی زندگیاں نچھاور کی ہیں تاکہ غلامی کے تاریک دور کا خاتمہ ہو سکے  اور بلوچ قوم کو بھی آزادی کا روشن دن دیکھنا نصیب ہو ہمیں شہداء کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچانا ہوگا۔


حمل حیدر نے کہاکہ  بانک کریمہ نے ہمارے پسماندہ سماج میں خواتین کو جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ان کی سیاسی جدوجہد کی وجہ سے آج بلوچ سیاست میں خواتین کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہوچکی ہے۔ 


آج لوگ اپنی بیٹی اور بہنوں کی سیاست میں شرکت پر فخر کرتے ہیں جو بانک کریمہ کی جہدوجہد کی حاصل ہے۔


انھوں نے کہاکہ شہید بانک کریمہ جب  کسی بات کو غلط جانتیں تو اس کی سختی سے مخالفت کرتی تھیں اور جب انھیں کسی بات کی سچائی کا یقین ہوتا تو اس پر ڈٹ جاتی اور بات دوٹوک انداز میں رکھتیں ۔ 


ایچ آر سی بی کے کوارڈینیٹر تاج بلوچ نے کہاکہ  ہمیں صرف لفاظی کی حد تک بانک کریمہ کو خراج تحسین پیش نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ بانک کریمہ کے خاندان نے جس طرح ان کی تربیت اور انھیں وہ ماحول دیا جس سے بانک کریمہ جیسی شخصیت پیدا ہوئیں ہمیں بھی اپنی بیٹی اور بہنوں کو وہی تربیت اور ماحول دینا چاہیے کہ کل وہ بھی بانک کریمہ بن سکیں۔


بی ایس او میں ان کی کابینہ کا حصہ رہنے والے بی این این یم کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری کمال بلوچ نے کہاکہ  شہید بانک کریمہ بلوچ ہمیشہ تنظیمی فیصلے کے پابند تھیں۔جب بی ایس او کے جبری لاپتہ چیئرمین زاھدبلوچ کی بازیابی کے لیے بی ایس او نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا تو بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کے لیے انھوں نے سب سے پہلے اپنی نام پیش کی، لیکن تنظیم نے یہ فیصلہ کیا کہ  وہ ان حالات میں تنظیم کی رہنمائی کریں گی ،جس کی اشد ضرورت ہے۔


اسی طرح وہ کسی بھی حال میں بیرون وطن جانا نہیں چاہتی تھیں لیکن  بی ایس او نے یہ فیصلہ کیا کہ بانک کریمہ اور لطیف جوہر بیرون وطن جاکر بلوچ قوم کا مقدمہ لڑیں گے اور جو کام وطن میں ممکن نہیں انھیں باہر انجام دیں گے۔


کمال بلوچ نے کہا کہ جب وہ بلوچستان میں تھیں تب بھی ان کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق تھیں،  انھیں فون کرکے یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے جبری لاپتہ ساتھی ان کے قید میں ہیں ،اگر وہ اپنے نظریات اور پروگرام سے تائب ہوں تو انھیں رہا کردیا جائے گا، لیکن بانک کریمہ نے زند گی اور آسائش کے بدلے اپنے نظریے سے منحرف ہونا قبول نہیں کیا ، بلکہ سخت جدوجہد اور  کھٹن زندگی کا انتخاب کیا۔


اس موقع پر مقررین نے شہید بانک کریمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ  وہ بلوچستان کے گنے چنے شخصیات میں سے ہیں، جنھوں نے بلوچ قومی سیاست کو ایک نئی جہت سے روشناس کرائی اور اپنے کردار و عمل سے بلوچ عوام کی کثیرتعداد کو متاثر کیا۔


وہ نا صرف بلوچ قوم کے لیے ایک مثالی رہنماء تھیں بلکہ تمام محکوم اقوام ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔


مقررین نے کہاکہ بانک کریمہ نے ہر محاذ پر نہایت بہادری کے ساتھ بلوچ قوم کا مقدمہ پیش کیا۔جب بی ایس او کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن زوروں پر تھا اور بی ایس او کے چیئرمین زاھد بلوچ سمیت کابینہ کے رہنماء جبری گمشدگی کا نشانہ بن چکے تھے،تو  انھوں نے بی ایس او کی قیادت سنبھالی اور اپنے نظریے اور ساتھیوں کی بازیابی کے لیے ایک طویل اور کھٹن جدوجہد کی قیادت کی۔


دریں اثناء   پسنی میں  شہید بانک کریمہ بلوچ کی  دوسری  یوم شہادت کے موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ کی مرکزی کال پر  پسنی بنزہ  کی طرف سے یادگاری پروگرام  کا انعقاد کیا گیا۔ 

۔

Post a Comment

Previous Post Next Post