بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم نے پمفلٹ جاری کیا ہے جس میں لکھا گیا ہے ،بلوچستان کے مختلف علاقوں دشت، بلیدہ، پسنی اور وندر میں اسکول نذر آتش کرنے کے واقعات رونما ہوئے ۔آپ نے ضرور سوچا ہوگا کہ ان اسکولوں کو کیوں جلایا گیا؟ اور کس نے جلایا؟ بلوچستان کی مجموعی صورتحال اور پاکستان کے نوآبادیاتی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان سوالوں کا جواب آسانی سے مل جاتا ہے۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ بحیثیت ایک قابض قوت کے پاکستان کس چیز سے زیادہ خوف زدہ ہوتاہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان بلاشبہ بلوچ قوم کے شعور و بیداری سے خائف ہے۔ یہ سکول بیداری عام کرنے میں کلیدی کردارادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے نوآبادیاتی نظام تعلیم میں بلوچ کے لیے کوئی خیر نہیں لیکن بلوچ نیشنلزم اتنا طاقتور ہے کہ بلوچ نوجوان اس بوسیدہ اور نوآبادیاتی نظام تعلیم سے شعور کشیدکرتے ہیں جو پاکستان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔
پمفلٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں بلوچ قوم کو پسماندہ رکھنے کے لیے اپنی نوآبادیاتی پالیسیاں سختی سے نافذ کی ہیں۔ خصوصا َ تعلیم کے میدان میں پاکستان کی نوآبادیاتی پالیسیاں نہایت عیاں ہیں ۔
بی این ایم نے پمفلٹ میں کہاہے کہ بلوچ قوم کو علم و شعور سے دور رکھنے کے لئے نہ صرف بلوچ طالب علموں اور استادوں کو جبری گمشدہ اور شہید کردیا گیا ، بلکہ بی ایس او جیسی متحرک طالب علم تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا۔
جامعہ بلوچستان کوئٹہ اور تربت یونیورسٹی کیمپس کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ سینکڑوں اسکول اور کالجوں کو نہ صرف فوجی کیمپوں اور چوکیوں میں تبدیل کیا گیا ہے بلکہ کئی اسکول اور کالجوں کو ویران کر دیا گیا۔
بلوچ طالبات کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے بلوچستان یونیورسٹی کی ہاسٹلوں حتیٰ کہ غسل خانوں میں خفیہ کیمرے نصب کرکے اس پر ایک اسکینڈل کی سازش کی گئی۔ دوسری طرف اپنے مذہبی گروہوں کے ذریعے پنجگور اور دیگر علاقوں میں دھمکی آمیز پمفلٹ کے ذریعے علم و شعور سے دور رکھنے کی کوششیں ریاستی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔ اسکے علاوہ پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طالب علموں کو مختلف بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ علم و شعور سے بے بہرہ ہو کر پاکستانی قبضہ اور قومی مقصد سے بیگانہ ہوجائیں۔
انھوں نے لکھا ہے کہ دو ہزار آٹھ میں آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے نام پر ”مارو اور پھینکو“ پالیسی کا آغاز کیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت سینکڑوں بلوچ طالب علموں کو جبری گمشدگی کے بعد شہید کیا گیا۔ آج بھی سینکڑوں طالب علم پاکستانی ریاست کے زندانوں میں مقید ہیں، جن میں طالب علم رہنماء زاہد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ، شبیر بلوچ شامل ہیں۔
اسکے علاوہ شفیع بلوچ، کمبر چاکر، الیاس نذر اور کامریڈ قیوم بلوچ جیسے طالب علم رہنماوں کو شہید کیا گیا۔ طلبا کے علاوہ استاد صبا دشتیاری،استاد نذیر مری، استاد علی جان، سر زاہد آسکانی، اور رسول جان جیسے قابل استادوں کو شہید کیا گیا۔ خاتون معلمہ زرینہ مری کو اٹھارہ سال قبل لاپتہ کیا گیا تھا، جن کے بارے میں آج تک کسی کو کچھ خبر نہیں۔
پمفلٹ مطابق یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچستان میں جاری تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے بلوچستان کو فوجی چھاؤنی اور چوکیوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ قدم قدم پر چوکیوں میں فوج اور پیراملٹری فورسز کے کیمپ اور چیک پوسٹ قائم ہیں۔ ساتھ ہی فوج کے ڈیتھ اسکواڈز کے کارندے کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔
یہ تمام اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان میں اسکولوں کو نذر آتش کرکے کونسی طاقت بلوچستان کے نوجوان اور بچوں کو علم و شعور اور تعلیم کے زیور سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
آج بلوچستان معاشی و تعلیمی حوالے سے پسماندہ ہے۔ اسکی پسماندگی کا سبب پاکستان کا استحصالی و نوآبادیاتی نظام ہے جو ہمیں ہر طرح سے پسماندہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ اسکی قبضہ گیریت کو قبول کرکے بلوچ دائمی غلامی کے دلدل میں دھنس جائے۔ اس دلدل سے نکلنے کے لئے بلوچ قوم کے باشعور نوجوان مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے قربانی دے رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی تعلیم ہر دور میں ہر قوم کے لئے ایک ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔
انھوں نے پمفلٹ میں لکھا ہے کہ اگر کسی قوم کو علم ،تعلیم اور شعور سے بے بہرہ کردیا جائے تو وہ قوم تاریخ کے بے رحم موجوں کی نذر ہو کر گمنام ہوجاتی ہے۔ پاکستان نہیں چاہتی ہے کہ بلوچ نوجوان تعلیم حاصل کریں، شعوریافتہ رہیں۔ لیکن تمام ترمشکلات، نوآبادیاتی طرزتعلیم کے باوجود ہمیں تعلیم کے حصول پر زور دینا چاہئے تاکہ ہم اپنی قومی تحریک آزادی کومضبوط بنیاد فراہم کرسکیں۔