بلوچ جبری لاپتہ افراد شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4907 دن ہو گئے ہیں .
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں شال سے سیاسی و سماجی کارکنان ظہیر بلوچ داد محمد بلوچ قیوم بلوچ اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی .
وائس فار بلوچ مسئنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماماقدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچ شہدا کا مقدس لہو اور لاپتہ افراد کی عظیم لازوال قربانیاں رنگ لے آئیں۔
بلوچ جدوجہد عالمی ایوانوں میں رسائی حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوگئی ہے ، بلکہ بین الاقوامی برادری کو مقبوضہ بلوچستان پر توجہ مرکوز کرنے پر بھی مجبور کردیاہے ۔
انھوں نے کہاکہ ہر فورم پر وی بی ایم پی نے ریاستی سختیوں کے باوجود بلوچستان کی جنگ صورت حال پاکستانی ریاستی اداروں کی سفاکیت انسانی حقوق کی پامالیوں اور بلوچ فرزندان سیاسی کارکنان دانشور صحافی شاعر ادیب طلباء اساتذہ ڈاکٹر خواتین بچوں چرواہوں مزدور کسان اور مائیگروں کی جبری گمشدگیوں اور ان کی مسخ لاشوں کی وایرانوں میں پھینکے جانے کی واقعات حوالے ٹھوس شواہد دستاویزات ویڈیو کلپس تصاویر سمیت دیگر اہم اور مکمل تفصیلات فراہم کرکے ان سے بلوچستان میں مداخلت کا مطالبہ کیا۔
ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ بھی دنیا کے مظلوم قوموں کی ظلم کے سایہ میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ آج بلوچ قوم کے حقیقی لیڈر شپ اور دانشور کو بلوچ تہذیب کی بقا کا اندیشہ ہے اس لئے وہ سروں میں خروش اور دلوں میں غصہ اور نفرت لئے اپنی قدیم ترین تہذیب کے لیے راہ استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاریکی غلامی سے بچ نکلنے کیلئے دنیا کے عظیم قوموں کی طرح میدان میں اتر کر تاریخی غلامی کو اپنے ماتے سے مٹانے کے لیے قبضہ گیر اور اس کے بنائے گئے گماشتوں کے سامنے سینہ تھان کر پرامن جدوجہد مرنے کا فلسفہ پر کاربند ہیں، قومی پرامن جدوجہد کے ولولہ انگیز اور نفرت کے پیچھے ایک خفیہ امید وجود رکھتی ہے ، جو آگے چل کر قومی بقا کا ضامن بن جاتی ہے ۔
انھو ں نے کہاکہ بلوچ پرامن جدوجہد کو کچلنے کیلیے قبضہ گیر تشدد کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کے اندر سے کچھ مردہ ضمیر قوم کو استعمال کررہی ہے ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ پرامن جدوجہد کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔