بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کا چوتھا اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم فیصلے کئے گئے اور سی ٹی ڈی ہاتھوں طلباء کے جعلی مقابلوں میں قتل پر تشویش کا اظہار کیاگیا

 


بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کاچوتھا اجلاس زیر صدارت مرکزی چیئرمین جہانگیر منظور بلوچ شال میں منعقد ہوا، جسکی کاروائی سیکریٹری جنرل عظیم بلوچ نے چلائی۔ اجلاس کا آغاز شہدائےبلوچستان  و دنیاکے دیگرمحکوم اقوام کے شہیدوں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ اجلاس میں ، موجودہ سیاسی صورتحال،  بلوچستان کے تعلیمی مسائل، تنظیمی امور اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔



 اجلاس میں چیئرمین نے اپنے خطاب میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور وسائل کی کمی، بلوچستان کے موجودہ  غیر یقینی صورتحال ،سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کی قتل، تعلیمی اداروں میں طلباء سیاست و شعوری سرکلنگ پر پابندی، بلوچ قومی سیاست کو کمزور کرنے کے غیر سیاسی قوتوں کی سازشوں  سمیت طلباء کی جبری گمشدگیوں و قتل غارت پر گہرے تشویش کا اظہار کیا۔


 چئیرمین بی ایس او نے اپنے خطاب مین کہا کہ گزشتہ ادوار سے بلوچستان میں لاپتہ بلوچوں کے جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے سلسلے میں کافی تیزی آئی ہے۔


 گزشتہ مہینے خاران میں نوجوان شاعر تابش وسیم  سمیت دیگر تین افراد کو ایک ہی فرضی مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہاں تین اور نوجوانوں کو اغوا کرکے ان پر جعلی مقدمات درج کرکے انھیں دہشت گرد ظاہر کیا گیا لیکن ظلم کا یہ سلسلہ مزید طول لیکر ان کے لواحقین کو مزید حراساں کرنے تک پہنچ گیا ہے۔


 ا نھوں نے کہاکہ خاران میں بربریت کا شکار ایک ہی خاندان کے دو افراد نے خودکشی کرلی۔ بلوچستان میں نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور جعلی مقابلوں میں قتل نے ان کے خاندان سمیت طالبعلموں کو زہنی ٹارچر کا شکار بنا دیا ہے۔اس سے پہلے زیارت میں جعلی مقابلوں کے زریعے لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جس کے خلاف لواحقین نے کوئٹہ ریڈ زون میں ایک طویل دھرنا دیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی آکر ان کے تحفظات سنے اور  یقین دہانیاں کرائی کہ جبر کا یہ سلسلہ رک  جائے گا،  لیکن افسوس کے ساتھ ان واقعات میں کمی آنے کے بجائے مزید خطرناک اضافہ ہوگیا ہے۔


 ان تمام واقعات پر مرکزی کمیٹی کے  سمیت مرکزی کابینہ اور کمیٹی کے اراکین نے گہرے تشویش کا اظہار کیا۔

 

 مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں اراکین نے بلوچستان میں تعلیمی بحران اور حکومتی ناقص کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  یہ بحران موجودہ وقت سے نہیں بلکہ طویل مدتوں سے تعلیمی عمل کو متاثر کررہا ہے۔


 یونیورسٹی آف بلوچستان سب کیمپس خاران، لسبیلہ یونیورسٹی سب کیمپس وڈھ، گرلز کالج سوراب، جیونی، زہری، قلات، خضدار، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اور پولی ٹیکنیک کالج کوئٹہ، میر چاکر خان رند یونیورسٹی، سبی، خضدار یونیورسٹی دیگر اہم تعلیمی ادارے اساتذہ سمیت دیگر وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ جبکہ ان گنے چنے اداروں میں انتظامی کرپشن طلباء کے لئے مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔


 بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کابینہ و کمیٹی کے اراکین نے ان اقدامات کو حکام کی جانب سے مکمل تعلیم دشمنی قرار دے دیا۔ اراکین نے محکمہ تعلیم کے کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر علاقوں میں جب کہیں کسی بھی محکمے میں کوئی کمزوری کی نشان دہی ہوتی ہے تو ادارے فورآ متحرک ہو جاتے ہیں لیکن بلوچستان میں حالات یکسر مختلف ہیں جس سے متعلقہ اداروں کی بدنیتی و تعلیم دشمنی مکمل طور پر واضح ہوتی ہے۔ 


اجلاس میں فزیوتھراپی ایسوسی ایشن کی طویل احتجاج اور حکومتی بے حسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلوچ نوجوانوں کیلئے روزگار کے دروازے بند کرنے کا سازش قرار دے دیا۔ جبکہ جامعہ بلوچستان سمیت دیگر جامعات میں طالبعلموں کے فیسوں کی اضافہ پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا۔ 


اجلاس میں تنظیمی فعالیت اور تمام زونوں کی از سر نو جائز لینے کا فیصلہ کیا گیا۔


 انھوں نے کہا کہ تنظیمی فعالیت اور بلوچ طلباء میں بی ایس او کی مقبولیت  تمام اراکین کی جدوجہد اور قربانیوں کا بدولت ہے۔


 موجودہ وقت و حالات میں تنظیم ایک واضح سیاسی پروگرام کے تحت بلوچ نوجوانوں کی نمائندگی کررہی ہے جس سے مقتدر قوتیں اور چند غیرسیاسی اشرافیہ خوف میں مبتلاء ہوکر مختلف حربے آزما رہے ہیں۔


 سی سی اجلاس میں اراکین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مختلف وقت و کھٹن حالات سے نبردآزما ہوکر بی ایس او کے کارکنان نے واضح حکمت عملی کے تحت سیاسی و علمی جدوجہد جاری رکھا ہے۔


 بلوچ طلباء سیاست اس حالات میں مذید دوہرے پن اور کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔


انھوں نے کہا کہ طلباء سیاست غلط وقت پر غلط فیصلوں نے ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے۔ حالیہ صورتحال میں طالبعلموں کی کنفیوژن اور غیر سیاسی ہونے کا سب سے بڑا ذمہ دار وہ تنظیمیں ہیں جو حالات کے مطابق نظریہ بدلتے ہیں۔


بلوچ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کچھ لوگ مشکل حالات کی صورت میں مکمل غیرسیاسی بن کر خاموش ہوجاتے ہیں جبکہ گراؤنڈ سازگار ہو تو قوم پرسی کا ٹھیکہ اٹھالیتے ہیں لیکن بی ایس او نے ہمیشہ ایک ہی سیاسی نظریے کے تحت طلباء  اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔


 آئندہ کے لائحہ عمل میں تنظیمی بہتری اور فعالیت کیلئے مختلف فیصلوں کی منظوری دی گئی۔


 سینٹرل کمیٹی نے سابقہ سی سی ممبر نذیر بلوچ کی استفیٰ کے منظوری دے۔ جبکہ سی سی کے دو خالی نشتوں کیلئے شال زون سے تہذیب بلوچ اور اوستہ محمد زون سے سنگت شاہ بخش بلوچ کو سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔ 


سی سی اجلاس میں کوئٹہ زون کے اراکین باسط بلوچ اور اسرار بلوچ کے دراخواست موصول ہوئے جس پر اراکین نے دونوں کو آئندہ کیلئے تنبیہ کرتے ہوئے انکی رکنیت بحالی کی منظوری دے دی۔


سینٹرل کمیٹی اجلاس نے ادبی سرگرمیوں کی بڑھوتری کیلئے شال زون کو ایک رسالے چھپانے کی منظوری بھی دے دی جبکہ تنظیمی دوروں اور پروگراموں کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post