پسنی میں گرلز اسکول کو نذر آتش کرنے کا مقصد بلوچ خواتین کیلئے تعلیم کے دروازوں کو بند کرنا ہے، بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کل رات ضلع گوادر کے تحصیل پسنی میں گرلز پرائمری اسکول کی دفتر کو نذر آتش کرنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے بلوچستان کی تعلیم پر حملہ قرار دے دیا ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ گوادر سمیت بلوچستان میں لڑکیوں کی اسکولوں کو نذر آتش کرنے سمیت پرائیوٹ سیکٹر کے تعلیمی ماہرین کی قتل کے درجنوں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اس سے پہلے 4 دستمبر 2014 کو گوادر میں نجی اسکول کے سربراہ اور بلوچستان کے معروف ماہر تعلیم ذاہد آسکانی کو ان کے اسکول کے سامنے شہید کردیا گیا تھا جبکہ جامعہ بلوچستان کے پروفیسر اور بلوچ ادیب واجہ صباء دشتیاری، رزاق زہری سمت درجن بھر اساتذہ کو قتل کردیا گیا ہے۔ ترجمان بی ایس او نے کہا ہے کہ رواں سال اکتوبر کو بلیدہ میں کلکشان اسکول کو نذرآتش کردیا گیا تھا جسکے بعد حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی ذمہداران کو کھٹیرے میں لایا گیا۔ انھوں نےکہا کہ اسی طرح اگست 2014 کو پنجگور میں اسکول کو نذر آتش کردیا گیا تھا جبکہ 2013 کو دشت بل نگور میں گْوربام اسکول پر حملہ کرکے لائبریری سمیت کتابوں کو جلا دیا گیا تھا۔ بلوچستان میں اسکولوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات میں ایک بار پر تیزی آنا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ ترجمان بی ایس او نے کہا ہے کہ پسنی میں گرلز اسکول پر حملہ بلوچستان کی تعلیم اور شعور پر ایک بار پھر ایک وار ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں لڑکیوں کے لئے دستیاب تعلیمی اداروں کی تعداد ضرورت سے کافی کم ہیں اور ان گنے چنے اداروں کو نزر آتش کرنا اس بات کی غماز ہے کہ ایک مخصوص پالیسی کے تحت بلوچ بچیوں کی تعلیمی عمل میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ اس واقعے کہ ذمہداران کا تعکب کرکے سزا دیں۔ ترجمان نے انسانی حقوق کی تنظیموں بلخصوص خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے ان مسائل پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے آواز بلند کریں تاکہ دنیا کی دیگر خواتین کی طرح بلوچ خواتین بھی تعلیم سمیت دیگر بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post