اسلام آباد : بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کی جانب سے سانحہ نشتر ہسپتال ملتان اور نوشکی و خاران میں لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
جس میں مظاہرین نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے رکھے تھے، جس میں بلوچ نسل کشی اور ریاستی مظالم کے خلاف نعرے درج تھے۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچ نسل کشی اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اس خطے میں بہت جلد انسانی بحران جنم لے گا۔
ریاستی ادارے اپنے بنائے ہوئے آئین و قانون سمیت بین القوامی قوانین کو مسلسل پاؤں تلے روند رہے ہیں، جس سے انسانی حقوق کے اداروں اور بین القوامی قوانین کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔
مقررین نے مزید کہا کہ چار مہینے قبل زیارت کے مقام پر سیکورٹی فورسز نے نو لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں ماردیئے ، جس کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین نے کوئٹہ ریڈ زون میں 50 دن کی تاریخی دھرنا دیا۔
لواحقین نے وفاقی حکومت اور وفاقی کمیشن سے تحریری معاہدے کیا جس کے بنیادی نکات ہی یہی تھے کہ اب لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس معاہدے کو ابھی دو مہینے پورے ہی نہیں ہوئے کہ ایک دفعہ پھر ریاستی اداروں نے خاران اور مستونگ سے دس لوگوں کو جعلی مقابلوں میں قتل جس میں اکثریت لاپتہ افراد تھے جو سالوں اور مہینوں سے لاپتہ تھے۔
جبکہ ملتان کے نشتر ہسپتال سے پانچ سو کے قریب مسخ شدہ لاشیں لائی گئی تھی، جو ممکنہ خدشات کے مطابق لاپتہ افراد ہیں لیکن اس سنگین مسئلے کو دبایا گیا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔
مقررین نے آخر میں کہا کہ اب بلوچستان میں انسانی حقوق کی یہ صورتحال ہے کہ پاکستان حکومت، بلوچستان حکومت اور عدلیہ براہ راست اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا اظہار کررہے ہیں۔ بلوچستان میں تمام تر اختیارات اور معاملات عسکری اداروں کے سپرد ہیں ، جس سے بلوچستان کے انسانی حقوق کی صورتحال میں دن بہ دن شدت پیدا ہوتا جارہا ہے۔