ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب میں میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے حمیدہ نور، ظہیر بلوچ، اعجاز عمرانی، قادر نصیب، ممتاز ڈومکی و دیگر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان بھر کی طرح نصیرآباد ڈویژن بارشوں اور سیلابی ریلوں سے شدید متاثر ہوا ہے ۔
ہزاروں لوگ چند ایام میں بے گھر ہو گئے ہیں ، مال مویشی فصلات نیز سب کچھ ختم ہوچکا ہے لوگوں سڑکوں پر آ گئے ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ نصیرآباد ڈویژن کو آفت زدہ بھی قرار دیا جا چکا ہے ، مگر اس کے باوجود متاثرین کے بحالی کا مرحلہ آیا تو بجائے ضلعی انتظامیہ سیلاب متاثرین کی موثر بحالی کو یقینی بناتے، مگر امدادی سامان کی غیر منصفانہ تقسیم کی گئی ۔ ساتھ متاثرین تک انتظامیہ کا نہ پہنچنا پانے جیسی بدترین نا اہلی بھی دیکھنے کو ملی۔
انھوں کہاکہ امدادی کاروائی کے دوران پولیس کا سیلاب متاثرین کے ساتھ ناروا سلوک من پسند افراد میں راشن کی تقسیم یہاں تک کہ ان پر ہوائی فائرنگ لاٹھی چارج کے بعد سیدھی گولیاں بھی ماری گئی تو ساتھ ،صحت کے حوالے سے جنم لینے والے بحرانوں پر بھی ابھی تک قابو نہ پایا جاسکا ہے۔
پریس کانفرنس دوران انھوں نے کہاکہ جن علاقوں میں سیلاب کو راستہ دینے کےلئے شگاف لگائے گئے ان کو ابھی تک بند بھی نہ کیا جاسکا ہے ۔
انھوں نے الزام لگایا کہ سرکاری امداد کے ساتھ ساتھ این جی اوز کا بھی من پسند علاقوں میں جانا قابل مذمت ہے۔
راشن کے نام پر مختلف علاقوں میں سیلاب متاثرین کی تذلیل اور ان پر لاٹھی چارج کے واقعات میں اضافہ ناقابل برداشت عمل بن
چکا ہے ۔
مقررین نے کہاکہ ضلعی انتظامیہ کا مقامی ایم پی ایز کے ساتھ مل کر راشن تقسیم کرنا کیٹل فارم میں پولیس کی جانب سے دوران راشن تقسیم فائرنگ کی وجہ سے نوریز مستوئی کے قتل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انتظامیہ بجائے تحفظ کے لوگوں کے قتل عام میں شامل ہے۔
سول سوسائٹی نے پریس کانفرنس دوران گیارہ مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ۔
انھوں نے کہاکہ راشن کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بنایا جائے ۔
سیلاب زدہ علاقوں میں سروے میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے ۔
وفاقی امداد بی آئی ایس پی کے تحت ملنے والے امداد کو ان علاقوں میں بھی فراہم کیا جائے، جنھیں سیاسی بنیاد پر نظر انداز کیا گیاہے ۔
جن علاقوں میں ابھی تک سیلاب کا پانی موجود ہے ان کی نکاسی یقینی بنا کر زمینوں کو کاشت کے قابل بنایا جائے ۔
عام کسانوں کو ہونے والے نقصانات کا الزالہ کیا جائے ۔
چھوٹے کسانوں کے زرعی قرضے معاف کئے جائیں ۔
نہروں کے شگاف بند کرکے سیلابی گزرگاہوں پر پل بنائے جائیں۔
نہروں کی پشتے مضبوط کئے جائیں اور بندات باندھے جائیں۔
جو کسان ابھی تک بے گھر ہیں انھیں سردیوں سے قبل پکے گھر فراہم کئے جائیں ۔
تمام تعلیمی اور صحت کے اداروں دوبارہ بحال کئے جائیں ۔
اور ملیریا و دیگر وجوہات سے ہونے والی اموات پر متاثرین کو معاوضہ ادا کئے جائیں۔