جبری گمشدگی،اجتماعی نعشیں اور بلوچستان کے موضوع پر بی این ایم نے پمفلٹ جاری کردی

شال : بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم شعبہ آئی ٹی و اطلاعات نے سوشل میڈیا پر پمفلٹ جاری کرتے ہوئے لکھاہے ۔ گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان نے بلوچستان میں ظلم و جبر کے ایسے کارنامے سر انجام دیے جن سے بلوچستان میں بسنے والا ہر فرد ذہنی، جسمانی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی حوالے سے متاثر رہا ہے۔ پاکستان کے نو آبادیاتی نظام اور تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے اور چین پاکستان اکنامک منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دل اور دماغ جیتنے کی پالیسی آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا گیا اور اسی پیکج کے تحت بلوچستان میں تلاش کرو، تشدد کرو اور مسخ شدہ لاش بنا کر ویرانوں میں پھینک دو کی پالیسی بھی جاری رکھی گئی تاکہ ایک طرف پیکج کے ذریعے بلوچ عوام کا دل جیتا جاسکے اور دوسری طرف جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کے ذریعے ڈر اور خوف کی فضاء قائم کرکے آوازوں کو دبایا جاسکے. پمفلٹ میں کہاگیاہے کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ جب پاکستان نے بلوچستان میں جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا عمل شروع کیا تو بلوچستان کی آزادی کے لیے برسر پیکار پارٹیوں اور تنظیموں نے عوام کی مدد سے اس عمل کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور اپنی آواز عالمی اداروں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی شعوری جدوجہد کی وجہ سے پاکستان جیسا ظالم اور جابر ریاست اپنے عمل سے تو باز نہیں آیا لیکن وہ جن لاپتہ افراد کی لاشوں کو مسخ کرکے سڑکوں اور جنگلوں میں پھینکتا تھا تاکہ خوف کو مزید قائم رکھ سکے لیکن اب وہ خود آپ کی جدوجہد سے خائف ہو کر جبری گمشدہ افراد کو اجتماعی قبروں میں دفنانے کے عمل جیسے سنگین جرائم کا مرتکب ہوا تاکہ بلوچ سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں اپنے عوام کی مدد سے پاکستان کا گھناؤنا چہرہ دنیا کے سامنے آشکار نہ کرسکیں۔ مسخ نعشوں بارے پمفلٹ میں لکھا گیاہے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا عمل ہو یا جبری گمشدہ افراد کو اجتماعی قبروں میں دفنانے کا عمل یہ سب پاکستانی ریاست کی کارستانی ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں میں دفنانے کے عمل کے بعد جبری گمشدہ افراد کی لاشوں کو پنجاب کے ہسپتالوں میں لاوارث سمجھ کر سرد خانے منتقل کیا گیا اور نہ ان لاشوں کو ڈی این اے کے لیے بھیجا گیا اور نہ ہی پاکستان کے کسی نیوز چینل نے اس خبر کو نشر کیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لاشیں بلوچ جبری گمشدگان کی ہی تھیں جنھیں لاوارث سمجھ کر دفنایا گیا تاکہ اس عمل کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھا سکے۔ حال ہی میں ملتان کے نشتر اسپتال میں 500 لاشیں چھت کے اوپر پھینکی گئیں جن کی شناخت ممکن نہیں لیکن شبہ ہے کہ یہ مسخ شدہ لاشیں بلوچ جبری گمشدگان کی ہی ہوسکتی ہیں کیونکہ بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ عوام کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق یہ لاشیں فورسز کے افراد لے آئے تھے جس کی وجہ سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ یہ لاشیں جبری گمشدہ افراد کی ہی ہوسکتی ہیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ کی لاپتہ افراد کی لواحقین سے جھوٹی وعدہ اور یقین دہانی بارے پمفلٹ میں درج ہے کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر داخلہ، وزیر قانون کی سربراہی میں ایک وفد شال میں زیارت واقعے کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے میں لواحقین سے ملا اور انھیں یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں نہیں مارا جائے گا اور جبری گمشدگی کے لیے قانون سازی کی جائے گی لیکن مقتدرہ اداروں کے یقین دہانی کے باوجود اس پر عملدرآمد ہونے کے بجائے بلوچستان کے عوام کی جبری گمشدگی نہ کم ہوسکی اور نہ ہی جعلی مقابلے کم ہوئے اور نہ ہی مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی رک سکی جو یہ عیاں کرتا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سر چشمہ فوجی طاقت ہے اور فوجی طاقت کے سامنے کسی بھی ادارے کو ہمت نہیں کہ وہ اس عمل کو روک سکے۔بہادر قوم کے بہادر پمفلٹ میں بلوچ فرزندوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہاگیاہے، پاکستان اپنے اس عمل سے باز نہیں آئے گا کیونکہ پاکستان ہر قیمت پر بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ڈراؤ، دل و دماغ جیتنے اور تباہ کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہے گا۔پاکستان کے اس جابرانہ و ظالمانہ عمل کو روکنے کا واحد ذریعہ ہی عوامی مزاحمت ہے، عوامی و سیاسی مزاحمت کے بغیر سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں نہ قومی تحریک کو آگے بڑھاسکتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے اس گھناؤنے جرم کو روک سکتی ہے۔ اس لیے بلوچ عوام سیاسی مزاحمت کو اپنا ہتھیار بنا کر اس عمل کے خلاف بند باندھ سکتے ہیں جب تک ہم خاموش رہیں گے پاکستان اس عمل کو سر انجام دیتا رہے گا۔شعوری جدوجہد ہی ہماری کامیابی کا ضامن ہوگا اور ہماری کامیابی بلوچ وطن کا حصول ہے جس دن ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے اس دن بلوچستان پر امن ہوگا اور مسخ شدہ لاشوں کی بر امدگی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ آزادی سے قبل پاکستان کا یہ عمل جاری رہے گا اس لیے علم، عمل اور مزاحمت کا راستہ اپنا کر قومی پارٹیوں اور تنظیموں کو مضبوط کرنے کا عمل کا حصہ بن کر آزادی کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے کردار ادا کریں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post