تربت۔ انسانی حقوق کے ادارہ HRCP ریجنل آفس تربت مکران کی جانب سے سزائے موت کی مخالفت کے عالمی دن کے موقعے پر دو حصوں پر مشتمل ایک پروگرام ایچ آر سی پی کے ریجنل آفس تربت میں 10 اکتوبر 2022 کو منعقد ہوا۔ جس میں انسانی حقوق سے دلچسپی رکھنے والے خواتین اور مرد کارکنان نے شرکت کی۔
پروگرام کے پہلے حصے میں سزائے موت کے بارے میں شرکاء نے گفتگو کی۔
اس موقع پر ایچ آر سی پی کے ریجنل کوآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ زندگی ایک نعمت ہے، اسے موت کے سپرد کرنا نہیں چاہیے، بلکہ انسانیت کی فلاح کے لئے جرائم پیشہ افراد کو بھی سدھرنے کا موقع دینا چاہئے۔
انہوں نے کہاکہ انسان اشرف المخلوقات اور قابل اصلاح ہے۔ کسی بھی جرم کی سزا ضروری نہیں کہ موت ہی ہو۔ ایک انسان کو، چاہے وہ مجرم ہی کیوں نہ ہو، زندہ رہنے کا موقع ملنا چاہیے۔ جیل اصلاح کی جگہ ہے۔ اگر قیدیوں کو منشیات اور دیگر برائیوں سے بچاکر ذہنی تربیت دی جائے اور کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جائے تو سزا کاٹنے کے بعد وہ بہتر انسان اور بہترشہری بن سکیں گے۔
انہوں نے کہاکہ سزائے موت کو محض عبرت کے لیے جواز نہیں بنایا جاسکتا ۔ذہنی تربیت دینے اور شعور میں اضافہ کرنے کی بدولت کسی بھی انسان کی اصلاح ممکن ہے۔
انھوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2003 کو یہ فیصلہ دیا تھا کہ انسان قابل اصلاح ہے، اس لیے سزائے موت کاخاتمہ ہونا چاہئے اور اگر کسی جرم کے لئے کوئی بڑی سزا دینا ضروری ہو تو عمر قید کی سزا دینی چاہیے (جو 14 سال قید کے برابر ہے)، تاکہ یہ سزا کاٹنے کے بعد وہ زندہ رہ کر اپنی اصلاح کر سکیں اور بہتر انسان اور بہتر شہری بن سکیں۔
اسی فلسفے کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 اکتوبر کوسزائے موت کی مخالفت کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کر لیا۔
چنانچہ2003سے یہ دن دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے تا کہ لوگوں کو شعور و آگاہی دلاکر سزائے موت کو بتدریج دنیا بھر سے ختم کر دیا جائے۔
ان کوششوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اسکا خاکہ کچھ اس طرح ہے۔
اس وقت دنیا میں کل 196 ممالک ہیں جن میں سے 193 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں، جبکہ3 ممالک ابھی تک اقوام متحدہ کے رکن نہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے 106 ممالک میں سزائے موت مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے، جن میں یورپی یونین کے 27 ممالک بھی شامل ہیں۔
56 ممالک ایسے ہیں جن میں سزائے موت ابھی تک باقی ہے، جن میں امریکہ، چین، ہندوستان اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
23 ممالک ایسے ہیں جن میں قانونی طور پر تو سزائے موت موجود ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا جن میں روس سرفہرست ہے ،اور 8 ممالک ایسے ہیں جن میں سزائے موت صرف بڑے بڑے جرائم کے لئے موجود ہے جن میں برازیل اور اسرائیل وغیرہ شامل ہیں،
جبکہ اقوام متحدہ کے غیر رکن ممالک میں سے ایک تائیوان ہے جہاں سزائے موت قانونی طور پر موجود ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔دوسرا فلسطین ہے جہاں سزائے موت قانونی طور پر موجود ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا اور تیسراویٹیکن سٹی ہے جہاں سزائے صرف پوپ کے قاتلوں کے لئے موت موجود تو ہے ۔
پروگرام میں آل پارٹیز کیچ کے کنوینر خلیل بلوچ ، خان محمد جان، محمد کریم گچکی، شگراللہ یوسف، ماسٹر عبدالغنی ، شھناز شبیر و دیگر نے بھی بحث میں حصہ لیا۔
اس دوران تربت سول سوسائٹی کے ڈپٹی کنوینر جمیل عمر دشتی اور احد الہی میروزئی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں ایچ آر سی پی ریجنل آفس کے سامنے سزائے موت کی مخالفت کے سلسلے میں مختلف نعروں سے مزین پلے کارڈوں کے ساتھ ایک مظاہرہ بھی کیا گیا۔