بلوچ جبری لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کو 4749 دن ہوگئے ۔

شال ( اسٹاف رپورٹر سے ) بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4749 دن ہو گئے ہیں. اظہار یکجہتی کرنے والوں میں نیشنل پارٹی کے مرکزی عہدیداران مرکزی جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی سینیٹر کبیرمحمد شہی ڈاکٹر محمد اسحاق ڈاکٹرطارق اور دیگر ساتھیوں نے کیمپ کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی اس موقع پر وی بی ایم کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ بلوچ نوجوانوں اور ہرمکتبہ فکرکے لوگوں میں شعور بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل رہا ہے اور لوگوں میں اپنے پیاروں کی بازیابی کا ایک جذبہ پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اس غلامی سے چھٹکارا اور اپنے حالت زار کو بدلنے کیلیے عملی کوشش کریں تو دوسری طرف ریاست اس سیاسی بیداری سے ِخائف اپنے پوری طاقت کے ساتھ بلوچ پرامن جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کےلیے اپنے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لاکر بلوچ نسل کشی کا عملا آغار کر چکا ہے۔ انھوں نے کہاکہ ریاست اپنے کثیر الجہتی پالیسی سے ایک طرف بلوچ آبادیوں پر آتش و آہن برسا کر عام شہریوں کے قتل عام کا مرتکب ہو رہا ہے تو دوسری طرف اپنے روایتی مارو پھینکو پالیسی پر تند ہی سے بدستور عمل پیرا ہے۔ آج بلوچ فرزندوں کی جہدوجہد قربانیوں کی وجہ سے بلوچ قومی پرامن جدوجہد دنیا بھر روشناس ہوچکا ہے بلوچ پرامن جدوجہد عالمی پذیرائی میں بلوچ نوجوانوں کا ایک بہت بڑا کردار ہے جہنوں نے اپنے لازوال قربانیوں اور ان تھک محنت سے فلسفہ جہد کو ہر بلوچ نوجوانوں کے ذہن میں نقش کر دیا ہے ۔ ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کے اس پرامن طالب جمہوری پرامن جدوجہد ریاست کو اس حد تک بھوکلا دیا ہے کہ وہ غیر مسلح پرامن طالب علم کو نا صرف تعلیمی اداروں سے اغوا کر کے شہید کر رہے ہیں ۔ بلکہ اب اسے کتابوں اور پبلشروں سے بھی خوف محسوس ہو رہا پے۔ ماما نے کہا کہ ہر بلوچ طالب علم اور دوسرے تنظیمی کارکنوں کی ذمہداری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے تنظیمی ڈسپلن کا پابندی کرکے آزاد خیالی سے دور رہیں تاکہ ایک منظم انداز میں اپنے پروگراموں کو آگے بڑھا سکیں ۔ انھوں نے کہاکہ کسی بھی قسم کی آزاد خیالی نا صرف مقصد بلکہ مجموعی طور پر تنظیم سمیت تمام کارکنان لواحقین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post