گمشدہ افراد جنکی نعشیں ملیں سیاسی کارکن ، دانشور طالبعلم ڈاکٹرز اور اساتذہ تھے ۔ماما قدیر

کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹر سے )بلوچ جبری لاپتہ افراد شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4739 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں قلات سے سیاسی و سماجی کارکنان عبدالحمید، نور محمد بلوچ اور دیگر خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی. اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے. ہزاروں بلوچ سیاسی کارکن جبری گمشدہ جوکہ پاکستان کی خفیہ حراست اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں ۔ ان میں سے ہزاروں کو ماورائے قانون شہید کرتے ہوئے ان کی نعشیں ویرانوں میں پھینک دیئے جاچکے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ گمشدہ افراد جنکی نعشیں ملیں سب کے سب سیاسی کارکن دانشور طالبعلم ڈاکٹرز اور اساتذہ تھے ۔ اب تک ہزاروں بلوچ پاکستانی خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں میں قید ہیں اب تک جبری گمشدہ افراد کی بازیابی میں کوئ بھی پیش رفت نہیں ہوئ ہے ۔ ماماقدیر بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستانی عقوبت خانوں میں قید ہمارے پیارے ہر روز موت کا سامنا کررہے ہیں، لیکن پاکستانی حکومت انتہائ مجرمانہ انداز میں اس معاملے پر انکاری ہے ۔ انھوں نے کہاکہ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے پاکستانی حکومت متعدد اجلاس منعقد کئے اور کئ کمیٹیاں بھی تشکیل دیں ، لیکن کوئ بھی کمیٹی آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکی ، کیونکہ بلوچستان ایک چھاونی کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں تمام فیصلے فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہیں ۔ انھوں نے کہاکہ یہاں فوج اور اس کے حواریوں کی ننگی جارحیت کے خلاف کوئی آواز اٹھائے تو نشان عبرت بنایا جاتاہے، دوسری جانب انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا کردار ما سوائے سالانہ رپوٹوں کے اسکے علاوہ انسانی اداروں کی جانب سے جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کا کوئ بھی قانونی مدد حاصل نہیں ، ایک انتہای اہم بات یہ ہے کہ ایک انسانی حقوق کے ادارے جو اعداد مسنگ پرسنز کے بارے میں شائع کیے تھے انہیں بھی "وی بی ایم پی" نے رد کر دیا تھا ۔ اس صورتحال میں آئے روز بلوچستان میں پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھ جبری اغواہ اور شہید ہوتے آرہے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post