کوئٹہ : ریڈ زون احتجاجی دھرنے پر الصبح چار بجے مشیر داخلہ کی آمد لواحقین کو دھرنا ختم کر کے گھر آنے کا مشورہ

کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹر سے ) جمعہ الصبح چار بجے وزیر داخلہ بلوچستان کے مشیر ضیا لانگو کا اچانک ریڈ زون پر بیٹھے لاپتہ افراد کی لواحقین کے دھرنے میں گاڑیوں کی سائرن اور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ غیر متوقعہ آمد ۔ دھرنے پر بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ قائل کرنے کی کوشش کیا کہ اس طوفانی بارش میں آپ لوگ دھرنا ملتوی کرتے ہوئے ہمارے گھر آ جائیں، برسات ختم ہونے تک ٹھریں ، نہیں تو بچے بچیاں اور بزرگ عورتیں اس موسمی اثرات سے بیمار پڑھ جائینگے۔ لواحقین نے اس بات پر انتہائی حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شکر ہے کہ وزیر داخلہ کو اتنے دنوں بعد یہ تو یاد آیا کہ یہاں کچھ لوگ خیمہ لگا سڑک پہ بیٹھے ہیں، لیکن انھیں یہ پہچانے میں غلط فہمی ہوئی ہے کہ ہم سیلاب زدہ نہیں ہے، بلکہ ریاست زدہ ہیں، ہم یہاں امداد لینے یا شیلٹر مانگنے نہیں آئے ہیں، ہمیں اگر گھروں میں بیٹھنا ہوتا تو اپنے گھروں میں آرام سے رہتے - لواحقین کا تھا کہ حکومت بلوچستان کو 37 دنوں بعد ہماری موسمی اثرات سے ازیت کا احساس ہوا ہے اور جب کہ دوسری جانب کئی سالوں سے ہمارے پیارے جو جبری طور پر لاپتہ کردئے گئے ہیں اس درد ، دکھ، ازیت، جبر، استبداد، کا احساس نہیں ۔ انھوں نے کہاکہ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت کو ہمارے اپنے پیاروں کے جدائی کا احساس کرتے ہوئے ہمارے تمام جبری طور پر لاپتہ کردئیے گئے افراد کو بازیاب کرانے میں شروع سے سنجیدگی اور عملی طور پر اقدامات اٹھاتے ۔ جب دھرنے میں شریک ایک شرکا نے مشیر سے طنزیہ سوال کیا کہ آپ نے ہماری حال پوچھنے کی کچھ جلدی نہیں کی۔۔؟ تو ان کا کہنا تھا کہ "میں اپ لوگوں کا کیس ارباب اختیارات سے لڑ رہا ہوں اور یہ وفاقی مسئلہ ہے" دھرنے کے شرکا نے موصوف کو آڑے ہاتھوں لیکر مشورہ دیاگیا کہ "اگر آپکے بقول یہ وفاقی معاملہ ہے مگر بندے سارے بلوچستان اور سندھ سے اٹھائے جاتے ہیں؟ پھر یہ آپ لوگ حکومت بلوچستان کی جانب سے وفاق کو یہ جواب دہ کریں کہ بلوچستان سے ہمارے لوگوں کو جبری لاپتہ کرنا بند کر دیں، اگر وفاق سنجیدہ نہیں تو بلوچستاں حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی پھر ہمارے دھرنے میں شریک ریے ، ہمیں سیلاب اور موسمی حالات سے متاثرہ سمجھ کر ریسکیو کرکے اپنے گھروں کے دروازے کھولنے کو کہتے ہماری ریسکیو تب ہوگی جب ہمارے پیاروں کو حکومت بازیاب کرواکر ہمارے گھروں تک پہنچا دے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post