جھوٹ کے پر نہیں ہوتے – تحریر: رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرنے کی غیر انسانی عمل کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے لاپتہ افراد کے خاندانوں بالخصوص خواتین اور بچوں کی جہد مسلسل ریاست پاکستان، خاص طور پر فوج اور خفیہ اداروں کیلئے گلے میں پھنسی ہوئی کانٹے کی طرح ہے جو روز بروز ان کا سانس لینا مشکل بنا رہی ہے یہ ایک ایسامعاملہ ہے جو مقبوضہ بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف عوام کی مخالفت و نفرت کو روز بروز زیادہ کرنے، ریاست اور بلوچ قوم کے مابین قابض اور محکوم کے رشتہ کو اجاگر کرنے میں ایک کلیدی عنصر بن گیا ہے بلوچ تحریک ٓزادی کے حوالے سے یہی ایک ایسا مسئلہ ہے جو حقوق انسانی کے عالمی اداروں کے پلیٹ فارمز پر ریاست پاکستان کیلئے مسلسل دباؤ اور خفت کا باعث بنا ہوا ہے حتیٰ کہ پاکستان کی حزب اختلاف بھی فوج اور خفیہ اداروں پر دباؤ ڈالنے کیلئے بوقت ضرورت جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کے مسئلہ کو استعمال کرتی رہتی ہے گزشتہ دو دہائیوں سے باری باری فوج کے ساتھ شریک اقتدار ہونے والی بڑی پاکستانی پارلیمانی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے قائدین کی جانب سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کرنے، متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور انسانیت کے خلاف اس جرم کا سارا ملبہ فوج اور خفیہ اداروں کے سر تھونپنے کے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ جب سے پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس نے جبری گمشدگی کو بلوچ تحریک ٓزادی کے خلاف بطور ٓلہ جبر استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی ہے تب ہی سے پاکستانی سیاسی جماعتیں، باری باری فوج کے ساتھ شراکت اقتدار کے باوجود،اس غیرانسانی اور غیر قانونی پالیسی اور ظالمانہ عمل کا بوجھ مل کر فوج کے ساتھ اٹھانے سے گریزاں ہیں۔اس پالیسی کی واضح جھلک پیپلز پارٹی کی اس وقت کے حکومت کی طرف سے ۱۱۰۲؁ میں کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈسپیئرنس (ازاں بعد صرف کمیشن لکھا جائے گا)کی تشکیل میں صاف نظر آتا ہے۔ جبری گمشدگی کی یہ پالیسی پاکستانی جرنیلوں کے سر پر لٹکتی ایک ایسی تلوار ہے جو کسی بھی وقت لڑھک کر ان کے گلے کاٹنے کا باعث بن سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے شروع ہی سے نام نہاد کمیشن، عدلیہ، میڈیا اور اپنے دوسرے آلہ کاروں کے ساتھ مل کرجبری گمشدگیوں کے واقعات کو چھپانے اور ایسے واقعات کی سچائی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔پاکستانی جرنیل، ان کے ایجنٹ جرنلسٹ، نام نہاد کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال اور ان کے دیگر آلہ کار بڑی ڈھٹائی کے ساتھ تواتر کے ساتھ کبھی یہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ جبری لاپتہ بلوچ بیرون ملک چھپے ہوئے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ لاپتہ بلوچ بلوچستان کی آزادی کیلئے برسرپیکار مسلح تنظیموں کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ اسی طرح جب بھی بلوچ سرمچار پاکستانی فوج اور مفادات پر کوئی بڑا حملہ کرتے ہیں تو ایسے حملوں میں دوران مقابلہ جان بحق ہونے والے سرمچاروں کے بارے میں فوج اور میڈیا میں ان کے آلہ کار صحافی فوری یہ دعویٰ شروع کرتے ہیں کہ حملے میں جانب حق ہونے والوں کے نام لاپتہ افراد میں شامل ہیں جیسے کہ گوادر پی سی ہوٹل، کراچی اسٹاک ایکسچینج، چینی کونسلیٹ کراچی، پنجگور اور نوشکی میں فوج کے مراکز پر فدائی حملوں میں جان بحق ہونے والے سرمچاروں کے بارے میں پاکستانی فوج اور میڈیا نے دعویٰ کیا مگر آج تک ریاست پاکستان اس بارے میں ایک ثبوت بھی پیش نہیں کرسکا ہے۔راقم الحروف کی معلومات کے مطابق مختلف وجوہات کی بنا پرمقبوضہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے ستر فیصد سے زائد واقعات کی رپورٹنگ و اندراج نہیں ہوتا (عدم اندراج کے وجوہات یہاں زیر بحث نہیں ہیں)۔ جبری گمشدی کے جو واقعات درج ہوتے ہیں ان کی ایک فہرست وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی مرتب کرتی ہے ایک فہرست کمیشن کے روبرو درج رپورٹس کی ہے اور ایک فہرست بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے مرتب کی ہے پاکستانی فوج، اس کا آلہ کار میڈیا اور کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال اپنے تمام تر جھوٹے پروپیگنڈہ کے باوجود فوج اور ریاستی مفادات پر حملوں میں جان بحق ہونے والے کسی ایک سرمچار کا نام مذکورہ بالا فہرستوں میں موجودثابت نہیں کرسکے ہیں جب کبھی سرمچار فوج کو کاری ضرب لگاتے ہیں تو فوج اپنی ناکامی چھپانے اور بدلہ لینے کیلئے جبری لاپتہ افراد میں سے کچھ بلوچ فرزندوں کو زیرحراست شہید کرکے سی ٹی ڈی پولیس یا فوجی ترجمان کی طرف سے ان کی شہادت کو مقابلہ میں مارے جانے کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کرتی ہے اور ہر بار ریاست کی جھوٹ پکڑی جاتی ہے ایک ایسے ہی جعلی مقابلے میں ۵۱ جولائی ۲۲۰۲ کو پاکستانی فوج نے ۹ جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کو زیرحراست شہید کرکے دعویٰ کیا کہ انھیں مقابلے میں ماراگیا ہے۔ واقعہ اسطرح ہے کہ لئیق بیگ مرزا نامی پاکستان فوج کا ایک لفٹننٹ کرنل اور اس ایک چچازاد ۲۱ جولائی ۲۲۰۲ کواپنے فیملیز کے ہمراہ زیارت سے کوئٹہ جارہے تھے کہ راستے میں مسلح افراد نے ان کی گاڑیوں کو روکا اور لئیق بیک اور اس کے کزن عمر جاوید کواتار کر اپنے ساتھ لے گئے بعد ازاں بلوچ لبریشن آرمی نے واقعہ کی ذمہداری قبول کی۔فوج نے فوری طور پرزیارت اور گرد و نواح میں ریسکیو آپریشن شروع کی۔ ۴۱ جولائی کو آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کی ۳۱ اور ۴۱ جولائی کی رات فوج نے ۶ سے ۸ مسلح افرادکو منگی ڈیم زیارت کے علاقہ میں گھیرے میں لیا اور فائرنگ کے تبادلہ میں دو مسلح افرادمارے گئے جبکہ کرنل لئیق کو قتل کرکے باقی مسلح افراد فرارہوگئے اگلے دن آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ ۴۱ اور ۵۱ جولائی کی رات خلافت کے پہاڑی علاقہ میں فوج نے بی ایل اے کی ایک کمین گاہ کے خلاف آپریشن میں ۵ مسلح افراد کو مارا ہے او ر فوج کاخان مخمد نامی ایک حوالدار بھی مارا گیا ہے بی ایل اے نے فوجی ترجمان کے دعویٰ کو مسترد کرت ہوئے کہا کہ مذکورہ آپریشن میں حصہ لینے والے اس کے تمام سرمچار اپنا مشن مکمل کرکے باحفاظت اپنے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ گئے ہیں اور اس کا کوئی سرمچار مارا نہیں گیا ہے۔ ۷۱ جولائی کو شہداء کے لاشوں کی تصاویر ذرائع ابلاغ میں شائع کی گئیں اور لاشوں کو شناخت کیلئے سول اسپتال کوئٹہ کے مُردہ خانہ میں رکھا گیا جن میں سے پانچ کی شناخت جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں شمس ساتکزئی(۷۱۰۲ سے لاپتہ)، ڈاکٹر مختیار بلوچ (۴ جون ۱۲۰۲ سے لاپتہ)، انجینئر ظہیر بنگلزئی (۷ اکتوبر ۱۲۰۲ سے زیرحراست)، شہزاد بلوچ (۴ جون ۲۲۰۲ سے زیر حراست) اور سالم کریم بخش (۸۱ جون ۲۲۰۲ سے زیرحراست) کے نام سے کی گئی۔ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں لاپتہ بلوچ فرزندوں کے قتل عام نے بلوچ قوم، بالخصوص لاپتہ افراد کے خاندانوں میں غم، غصہ اور تشویش کی لہر دوڑا دی۔اس قتل عام کے خلاف ہر طرف سے آواز اٹھنے لگی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم نے دیگر انسان دوست تنظیموں کے ساتھ مل کر کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ اور گورنر کے رہائش گاہوں کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گیا(تا دم تحریر ہذا دھرنا جاری ہے)۔ہر طرف سے اٹھنے والے آوازوں، لعن طعن اور دھرنے کی طوالت سے گھبرا کر کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے ۸۲ جولائی ۲۲۰۲ کو زیارت جعلی مقابلے کی تحقیقات کیلئے ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا اور سوشل میڈیا ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک تھریڈ میں کمیشن بنانے کا مقصدبھی بتایاجس کا لب لباب یہ تھا کہ تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مقصد عوام میں فوج مخالف جذبات کو کم کرنا اور فوج کے خلاف الزامات کو جھوٹا ثابت کرنا ہے قدوس بزنجو کے ٹوئیٹس سے ان کا ارادہ تو واضح ہوگیا تھا کہ کمیشن کا مقصد قاتلوں کا تعین کرنا اور ان کو انصاف کٹہرے میں لانا نہیں بلکہ قاتلوں کو جرم سے بری کرنا ہے ان کی اس بدنیتی اور سازش کو بے نقاب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ تحقیقاتی کمیشن کے اعلان کے اگلے دن یعنی ۹۲ جولائی ۲۲۰۲؁ء بروزجمعہ ایک تہلکہ خیز خبر میں زیارت جعلی مقابلہ میں مبینہ قتل ہونے والاانجینئر ظہیر بنگلزئی ایک پریس کانفرنس میں منظر عام پر آگیا۔ ظہیر کی اسطرح منظر عام پر آنے کو لے کر فوج اور خفیہ اداروں کے ہائبر بریگیڈ کے ٹرولز، آلہ کار اینکرز،دو نمبرصحافی ایک مرتبہ پھر جبری لاپتہ افرادکے انسانی مسئلہ پر ابہام، شکوک اور شبہات پیدا کرنے کی مہم بڑی سرعت سے شروع کی مگر یہ گھناؤنا مہم شروع ہوتے ہی بری طرح ناکام ہوا۔ ظہیر بلوچ کابازیاب ہونا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے لیکن وہ جن حالات میں بازیاب ہوا، اپنی گمشدگی اور بازیابی کی جو کہانی اس نے پریس کانفرنس میں سنایا وہ کہانی نہ صرف تضادات سے بھری ہے بلکہ اپنے بیان کی تائید میں وہ کوئی بااعتبار ثبوت بھی پیش نہیں کرسکا پریس کانفرنس کا احتمام پاکستانی فوج کے بدنام زمانہ دلالوں نوراحمد بنگلزئی اور حیدر بنگلزئی کی جانب سے کیا جانا اور اسی پریس کانفرنس میں ان دونوں ریاستی آلہ کاروں کی طرف سے جبری گمشدگیوں کے معاملے پرفوجی بیانیہ کو دہرانے، فوج اور خفیہ اداروں کی صفائی پیش کرنے، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور ماما ْقدیر کے خلاف زہر اگلنے سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ سارا ڈرامہ کیا ہے۔بلاشک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ پریس کانفرنس میں انجینیئر ظہیر نے جو کچھ بتایا وہ ایک گڑھی ہوئی کہانی تھا جس کا مصنف کوئی اور تھا۔اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ ظہیر نے اپنی گمشدگی اور بازیابی کے بارے میں بتایاکیا؟ انجینئر ظہیربنگلزئی نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ وہ ایک ایجنٹ (انسانی اسمگلر) کی خدمات حاصل کرکے تفتان کے راستے بغیر سفری دستاویزات کے ایرانی حدود میں داخل ہونے کے بعد ایرانی سرحدی محافظوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا جنہوں نے اسے ایک خفیہ قید خانہ میں رکھا پھرمنظر عام پرآنے کے روز اسے سرحد پر چھوڑ دیا۔ ظہیرکی زبانی اس کی گمشدگی اور پھر بازیابی کی کہانی سن کر اندازہ ہوا کہ کہانی نویس قانون، قانونی ضوابط اور پیچیدگیوں سے لا علم کوئی ڈڈ سر فوجی ہی ہوگا کیونکہ ایسا فلاپ اسکرپٹ کوئی فوجی آفیسرہی لکھ سکتا ہے پریس کانفرنس کے ابتدائی جملوں میں ہی اس گڑھی گئی کہانی کا پول کھل گیا جب ظہیر نے کہا کہ اسے سرحد پر ایرانی حکام نے چھوڑا تووہاں اسے جان پہچان والا ایک شخص ملا جسے ظہیر نے بتایا کہ اسنے کوئٹہ جانا ہے تو اس آدمی نے اسے نوشکی تک لفٹ دی پھر نوشکی سے اس نے ایک اور گاڑی سے لفٹ لی۔بقول ظہیراسے اپنے کسی عزیز اور دوست کا فون نمبر یاد نہ تھا پھر دوسرے ہی سانس میں وہ کہتا ہے کہ جب شیخ واصل کراس کے ہوٹل پر پہنچے تو اس نے مذکورہ گاڑی والے سے فون لے کر اپنے کزن سے بات کی اور اسے بلایا جب اس کا کزن اسے لینے پہنچا تو اسی نے ظہیر کو سارا ماجرہ سنایا (جبری گمشدگی کی رپورٹ، زیارت آپریشن کے دوران جعلی مقابلہ میں ۹ لاپتہ افراد کا قتل اور ان میں سے ایک کو ظہیر بنگزئی سمجھ کر دفنانے کا واقعہ)۔ایسی صورتحال میں فطری انسانی ردعمل اور جذبات کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے کزن سے اپنے مبینہ قتل اور فاتح خوانی کی خبر سن کر وہ سیدھا گھر جاکر اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو اپنے زندہ ہونے کی خوشخبری سناتا مگر وہ ریاستی ایجنٹ نوراحمد بنگزئی کے پاس گیا جس نے پریس کانفرنس کا احتمام کیا۔ اب تضاد بیانی اور جھوٹ دیکھیئے انجینیئر ظہیرجو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بلکہ اس کی خاندان کے بیشتر افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں توکیا یہ بات قابل یقین ہے کہ ایک ایسے خاندان کا برسر روزگار فرد بیرون ملک سفر پر نکلتا ہے اور گھر میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی؟ ایک ہی سانس میں ظہیر کا یہ کہنا کہ اسے کسی کا فون نمبر یاد نہیں تھا لیکن شیخ واصل کراس پہنچ کر گاڑی والے کا فون لے کر اپنے کزن کو بلانے کا دعویٰ صریح تضاد بیانی ہے۔ اس گڑھی گئی کہانی میں ایک اور مہلک تضاد ایرانی سرحدی محافظوں کے ہاتھوں ظہیر کی مبینہ گرفتاری، دس مہینے تک خفیہ جیل میں رکھے جانے اور پھر سرحد پرچھوڑ دینے کے دعوے میں نظر آتا ہے۔ نہ صرف ایرانی سرحد سے نزدیک مقبوضہ بلوچستان اورہمسایہ ملک افغانستان کے رہائشی معلوم ہیں بلکہ پنجاب اور دوسرے علاقوں سے ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش میں پکڑے جانے والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ ایران میں بغیرسفری دستاویزات داخل ہونے والے غیرملکی افراد کو ایرانی حکام تھوڑی سی تفتیش کے بعد سرحد پر لاکر ان کے اپنے ہی ملک کے سرحدی حکام کی تحویل میں دیتے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر انجینئر ظہیر کو نہ تو مبینہ گرفتاری کے وقت اس قانونی عمل سے گزارا گیا اور نہ چھوڑتے وقت۔یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ دس ماہ تک اسے خفیہ جیل میں ایرانی حکام نے کیوں رکھا؟ ابھی انجینئر ظہیر کی پریس کانفرنس کی ویڈیو وائرل ہوئی نہیں تھی کہ اسی پریس کانفرنس کی ایک اور ویڈیو نے خوب توجہ حاصل کی۔ دوسرے ویڈیو میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ فوج اور خفیہ اداروں کا ایجنٹ نوراحمد بنگلزئی اپنے ماتحت آلہ کار حیدر بنگلزئی کو سمجھا رہا ہے کہ پریس کانفرنس میں کیا کہانی بیان کرنا ہے جبکہ نوراحمد خود فون پر کسی اور سے ہدایات لے رہا ہے اور اطلاعات پہنچا رہا ہے دوسرے ویڈیو نے ثابت کیا کہ انجینئر ظہیر نے پریس کانفرنس میں جو کہانی سنایا اس کہانی کا اسکرپٹ رائیٹرکوئی پاکستانی فوجی آفیسر تھا اور ظہیر کی بہن محترمہ عظمیٰ نے جو ٹوئیٹ کئے وہ اس نے فوج اور فوجی دلال نوراحمد اور حیدر بنگزئی کے دباؤ پر کئے کیونکہ اس وقت تک ظہیر کو اس کی خاندان کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔ ایک تیسرا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر کافی توجہ حاصل کر رہا تھا جس میں ایڈووکیٹ عمران بلوچ، جس نے ظہیر کے اہلخانہ کی طرف سے ہائی کورٹ میں ظہیر کی بازیابی کیلئے پٹیشن دائر کیا تھا، ظہیر بنگلزئی کی جبری گمشدگی کے حوالے سے ظہیر کے بھائی کی جانب سے کوئٹہ پولیس کے پاس درج ابتدائی اطلاعی رپورٹ، ماضی میں خفیہ اداروں کی جانب سے ظہیر اور اس کے بھائیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے اورحراساں کرنے کے واقعات اور دستاویزات پر بات کر رہا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں دیگر بلوچ خاندانوں کی طرح انجینئرظہیر کا خاندان بھی عرصہ دراز سے فوج اور خفیہ اداروں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہاہے انجینئر ظہیر کو رہا کرنے اور دباؤ ڈال کر اس سے جھوٹا بیان دلوانے کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ زیارت فوجی آپریشن کے حوالے سے جعلی مقابلہ میں جبری لاپتہ ۹ بلوچ فرزندوں کے قتل عام کی تحقیقاتی کمیشن میں ظہیر سے بیان دلوا کرفوج کو انسانیت کے خلاف اس جرم سے بری الذمہ کیا جائے۔ مگر جس طرح فوج اور اس کے آلہ کاروں نور احمد بنگزئی اور حیدر بنگزئی کی جھوٹ لمحوں میں بے نقاب ہوگئی اس نے اس عالمگیر سچائی کو ثابت کیا کہ جھوٹ کے پر نہیں ہوتے

Post a Comment

Previous Post Next Post