زیارت جعلی آپریشن اور جبری گمشدگیوں کیخلاف دھرنا چوتھے روز بھی جاری

کوئٹہ لاپتہ افراد کے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کیخلاف دھرنا چوتھے روز بھی جاری ، محسن داوڑ اور دیگر کی دھرنے کے شرکاء سے اظہار یکجہتی ۔ دھرنے میں وی بی ایم پی ، بلوچ یکجہتی کمیٹی ، این ڈی پی ، بی ایس او ، بی ایس او کار اور لاپتہ افراد کے لواحقین شامل ہیں ۔ وی بی ایم پی کے جنرل سیکرٹری اور لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ بھی کل رات کوئٹہ پہنچ گئیں اور دھرنے میں شریک ہوئیں ۔ نیشل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنا محسن داوڑ نے دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ وہ زیارت میں بیگناہ اور جبری لاپتہ بلوچوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے اور اسے ریاستی جبر اور بلوچ نسل کشی سمجھتے ہیں ۔ ان حربوں سے بلوچ قوم کوانکی جدوجہد سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا ، ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست ہوش کا ناخن لے اور بلوچ کو سننے اور سمجھنے کی سقت پیدا کرے ۔ دھرنا کے شرکاء لاپتہ افراد کے لواحقین نے تین سادہ سے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں ، جن میں کہا گیا ہے کہ زیارت سانحہ پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے ، تمام لاپتہ افراد کی رہائی جلد از جلد مکن بنائی جائے اور تمام لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ انکے جبری لاپتہ زیر حراست لوگ جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنائیں جائیں گے ۔ دھرنے میں وی بی ایم ٹی کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم گزشتہ پار دنوں سے گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں مگر اب تک کسی بھی حکومتی وفد نے سنجیدہ مذاکرات کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے اور حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی تو منگل سے بلوچستان بھر میں شدید احتجاجی سلسلوں کا آغاز کیا جائے گا ۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں زیارت میں جعلی آپریشن کے نام پر پہلے سے جبری لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں قتل کر کے انکی لاشیں پھینکی تھیں ، جنکے لواحقین انکی بازیابی کیلئے مسلسل احتجاج کرتے آرہے تھے ، اسکے باوجودان کو قتل کر کے ان کی وابستگی ایک مسلح تنظیم سے ظاہر کی جو ریاستی بوکھلاہٹ ہے ۔ ریاستی اداروں اور فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کے فیک انکاؤنٹر میں ماورائے قانون قتل کیخلاف اور جبری لاپتہ افراد کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر چار دن پہلے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ لاپتہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ دوسری تنظیموں نے مل کے گورنر اور وزیراعلی ہاوس تک لانگ مارچ کیا اور پچھلے چار دونوں سے وہاں احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں.

Post a Comment

Previous Post Next Post