زیارت میں فوج کی جعلی مقابلے میں گیارہ لاپتہ افراد کو شہید کرنے خلاف احتجاج ساتویں روز بھی جاری

شال ریڈ زون ( اسٹاف رپورٹرز سے، ) جعلی مقابلے میں جبری لاپتہ افراد کی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوس کےسامنے دھرنے کا آج ساتواں دن جاری ہے ۔ دھرنے میں وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز اور اتحادی تنظیموں کے کارکنان سمیت جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی کثیر تعداد شریک ہیں - دھرنے میں کل متحدہ عرب امارات سے جبری لاپتہ بلوچ سماجی کارکن راشد حسين کی والدہ نے شرکت کی۔ جس کی حالیہ دنوں آنکھوں کے آپریشن ہوئی ہے اور انھیں ان کی آنکھوں کی وجہ سے ڈاکٹروں نے گھر بیٹھنے کا مشورہ دیا ہے ، لیکن بیٹے کی جدائی کے غم میں وہ گھر نہیں بیٹھ سکتیں ۔ جبکہ گزشتہ روز نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما کبیر محمد شہی سمیت مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ وہ زیارت میں جبری لاپتہ بلوچوں کے فورسز کے ہاتھوں قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اسے ریاستی جبر اور بلوچ نسل کشی کا تسلسُل سمجھتے ہیں ۔ آپ کو علم ہے رواں ماہ چودہ پندر جولائی کو زیارت میں پاکستانی فورسز نے جعلی آپریشن کے نام پر پہلے سے جبری لاپتہ گیارہ افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کرکے انکی نعشیں پھینکے تھے اور جھوٹا دوعوی کیا تھا کہ وہ مقابلے میں ھلاک ہوئے ہیں اور بلوچ لبریشن آرمی کے کارکن تھے ۔ حالانکہ ان لاپتہ افراد کے لواحقین انکی بازیابی کیلئے مہینوں سالوں سے مسلسل احتجاج کرتے آ رہے تھے، اسکے باوجود ان کو شہید کرکے ان کی وابستگی کسی مسلح تنظیم سے ظاہر کی گئی جو ریاستی بوکھلاہٹ سمجھا جا رہاہے۔ یہی وجہ ہے ریاستی اداروں اور فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کے جعلی مقابلوں میں ماورائے قانون قتل کے خلاف اور جبری لاپتہ افراد کے زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر پچھلے سات دنوں سے بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین دوسرے تنظیموں کے کارکنان گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے احتجاجی دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ مظاہرین کے مطابق آج حکومت بلوچستان کی طرف سے رجسٹرار ہائی کورٹ آف بلوچستان کو ایک خط لکھا گیا ہے ، جس کی کاپی ہمیں موصول ہوئی ہے جس میں ہائی کورٹ کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے لکھا گیا ہے۔ جس کا عنوان ہے کہ "اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ آیا زیارت میں قتل ہونے والے افراد پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد تھے کہ نہیں" دوسری جانب دھرنے کے شرکاء اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے تین سادہ سے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ زیارت سانحہ پہ جوڈیشل کمیشن قائم کی جائے، تمام لاپتہ افراد کی رہائی جلد از جلد ممکن بنائی جائے اور تمام لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ انکے جبری لاپتہ زیر حراست لوگ جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنائے جائیں گے۔ حالیہ فوج کی جانب سے جعلی مقابلے میں جبری لاپتہ افراد کو ھلاک کرنے بعد بلوچ جبری لاپتہ افراد کے خاندان والوں کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں، اور زیارت سانحے کے بعد یہ خدشات اور خطرات نے شدت اختیار کیا ہوا ہے یہی وجہ ہے لاپتہ افراد کے خاندان والے اپنے گھر نہیں بیٹھ سکتے ، شدید مون سون کی طوفانی بارشوں اور حکام کی طرف سے لاٹھیاں کھانے باوجود ریڈ زون میں بیٹھنے پر مجبور ہیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post