شال ( اسٹاف رپورٹر سے ) سانحہ زیارت کے خلاف گذشتہ آٹھ دنوں سے شال ریڈ زون گورنر اور وزیر اعلی کے گھروں کے سامنے وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز ، بلوچ یکجہتی کمیٹی ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ وومن فورم ،بی ایس او ، بی ایس او پجار کی طرف سے قائم احتجاجی کیمپ کے منتظمین نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم اپنے اپنے کارکنوں ساتھ یہاں پر امن احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔روز اول سے ہمارے تین مطالبات رہے ہیں ۔
زیارت سانحہ پر جوڈیشنل کمیشن قائم کیجائے۔
ہم تمام جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ہمارے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا
آخری تیسرا مطالبہ تمام جبری لاپتہ کو منظر عام پر لایا جائے ۔ شامل ہیں
انھوں نے کہاکہ ا پنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کیلئے ہم پر امن احتجاج کے تمام طریقہ آزما ء چکے ہیں۔ جن میں کوئٹہ سے اسلام آباد تک طویل اور تاریخی لانگ مارچ،اسلام آباد میں دھرنا اور وہاں وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات۔
لیکن اب تک کوئی بھی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی ہے، اب ہمارے لاپتہ افراد صحیح سلامت بازیاب ہونے کے بجائے، جعلی مقابلوں میں قتل کئے جا رہے ہیں -
پریس کانفرنس دورں انھوں نے کہاکہ ہمارے حکومت سامنے رکھے گئے تینوں مطالبات جائز اور آئینی ہیں ۔ ہم پر امن شہری ریاست سے اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کا تحفظ اور امن مانگ رہے ہیں اور اس کیلئے ہمیں احتجاج کرنے کا بھی بھرپور حق حاصل ہے۔
انھوں نے کہاکہ ایک مطالبہ جس میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ڈیمانڈ کیا گیا ہے، اس پر اتنی سی پیشرفت ہوئی ہے کہ کل حکومت بلوچستان کی طرف سے رجسٹرار آفس ہائی کورٹ کو جوڈیشل انکوائری کمیشن تشکیل دینے کیلئے لیٹر لکھا گیا ہے۔
مظاہرین نے پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم لاپتہ افراد کے لواحقین جن میں بوڑھی و بیمار مائیں اور شیرخوار بچے شامل ہیں ۔ پچھلے ایک ہفتے سے رات کی سردی اور دن کی گرمی میں یہاں سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مگر مجال ہے وزیر اعلی ، گورنر یا کوئی وزیر سیکرٹری آکر ہمارے پاس پنچ منٹ بیٹھ کر ہمیں سنیں ، یا اظہارِ یکجہتی کریں اور ہمارے آئینی مطالبات کو تسلیم کریں ۔
ا نھوں نے کہاکہ ایسے رویوں کی وجہ سے ہم سمجھنے میں حق بجانب ہونگے ۔ کہ یہ حکومت ہمیں سنجیدہ نہیں لے رہی ہے ،نا ہی ہمارے درد اور تکلیف کا ان کو کوئی احساس اور ادراک ہے ۔ وہ ہمارے تینوں مطالبات ماننے کیلے ذہنی تیار نہیں ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ اگر اس طرح ہمیں مزید نظرانداز کیا گیا تو ہم مجبوراً اپنے احتجاج میں شدت لائیں گے اور اسے وسعت دیں گے۔
انھوں نے کہاکہ اس وقت بلوچستان میں ہزاروں لوگ جبری لاپتہ ہیں جنکے لواحقین بعض وجوہات اور مجبوریوں کی بنا پر کوئٹہ کے دھرنے میں نہیں آ سکتے ہیں لیکن وہ اپنے اپنے شہروں میں نکل کر اس احتجاج کا حصہ بن سکتے ہیں۔
پریس کانفرسے خطابکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ا ب ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور مقتدرہ ادارے کا سربراہ آ کر ہمیں سنیں، ہمارے جائز آئینی مطالبات تسلم کر لیں اور ہمیں یقین دہانی کرائیں کہ ہمارے جبری لاپتہ پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا، تب ہم اپنا احتجاج ختم کریں گے -
انھوں نے اعلانیہ کہاکہ ہم اس زمرے میں کل تک کا وقت دیتے ہیں، اس کے بعد ہم دھر نے کے دوران مزید احتجاجی پیدل لانگ مارچ کرتے رہیں گے اور کل کے بعد ہم کوئٹہ تا کراچی مین شاہراہ بلاک کر دیں گے، اس دوران کسی بھی شہری کو کوئی بھی نقصان پہنچا تو ریاست اس کا زمہ دار ہوگا ۔
یہاں موسم کی شدت سے ہمارے بوڑھے ماؤں اور کمسن بچوں کی طبیعتیں بگڑتی جا رہی ہیں، تمام فیملیز کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں،