بلوچستان بھر میں بارشوں سے پھیلی ہوئی تباہی, عوام کی بےیار و مددگار حالات پر افسوس ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی

کوئٹہ ( اسٹاف رپورٹرز سے ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ بلوچستان بھر میں بارشوں سے پھیلی ہوئی تباہی و عوام کی بےیار و مددگار حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مون سون کی حالیہ بارشوں سے تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ سیلابی ریلوں و بارشوں سے اب تک 100 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ عوام کو شدید مالی و جانی نقصان کا سامنا ہے، گھر بار تباہ و فصلیں برباد اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ معمول کی زندگی شدید متاثر اور کئی گاؤں زیر آب آ چکے ہیں جس سے ہزاروں لوگ نقل مقانی کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس شدید تباہی کے باوجود عوام کو قدرتی آفات کے ساتھ چھوڑ دیا گیا ہے۔ تمام ریاستی مشینری اس تباہی پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ حکومت کی غفلت کی وجہ سے نقصانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ لسبیلہ، جھل مگسی، کیچ، جاؤ اور بلوچستان کے بہت سے دیگر علاقے اس وقت شدید بارشوں کے زد میں ہیں، جس سے کئی علاقے زیر آب آ چکے ہیں، اب تک حکومتی سطح پر 100 سے زائد افراد کی حالیہ بارشوں سے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے لیکن قدرتی آفات سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے حکومتی مشینری مکمل طور پر غائب ہے۔ بلوچستان کے ساتھ صرف انصاف اور ترقی کے معیار پر تعصب نہیں بلکہ قدرتی آفات کے سامنے بھی نظرانداز کیا جاتا ہے گویا یہاں انسان ہی نہیں رہتے۔ انھوں نے کہاہے کہ گزشتہ سال جب مری میں شدید برفباری میں لوگ پھنس گئے تھے تو پوری ریاستی مشینری سرگرم ہوکر انہیں ریلیف دینے پہنچ گئی ،مگر بلوچستان کے معاملے میں مکمل طور پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ میڈیا نے بھی خاموشی کا لبادہ اڑھا ہوا ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں۔ ترجمان نے وفاقی حکومت، حکومت بلوچستان،متعلقہ اداروں سے پرزور اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت ہزاروں افراد کی زندگیاں شدید خطرے سے دوچار ہیں، بہت سے علاقے سیلاب کے زد میں آتے ہوئے زیرآب آ چکے ہیں ، انہیں اشد مدد و امداد کی ضرورت ہے، سینکڑوں افراد سیلاب کے پانی کے اندر پھنس کر رہ گئے ہیں جنہیں ریسکیو کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہاکہ متاثرین کی اگر ان کی فوری طور پر ایمرجنسی بنیاد پر مدد نہیں کی گئی تو سینکڑوں افراد بشمول بچے و خواتین اپنی جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post