شال ( اسٹاف رپورٹر سے )
بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4715 دن ہوگئے۔
اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں چاغی اور دالبندین سے سیاسی اور سماجی کارکنان رسول بخش، عبدالنبی اور دیگر شامل تھے ۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں شخصی اور ذاتی خواہشات سے نکلنا ہوگا۔ اگر ہم انفرادیت سے نہ نکلے تو بلوچ قومی تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
انھوں نے کہاکہ جاری جدوجہد کو منزل تک ہم اس وقت پہنچا سکتے ہیں جب ہم اجتماعی قومی مفاد میں سوچ کر فیصلہ کریں گے۔
انھوں نے کہاکہ آج قابض ریاست نے پورے بلوچستان میں ظلم اور بربریت کا بازار گرم کر کھا ہے، فوجی آپریشن سے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے.
ماما نے کہاکہ ریاستی ادارے بلوچوں کی پر امن جدوجہد سے گھبرا کر طرح طرح کے نئے حربے استعمال کر رہے ہیں، جس کی قجہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں، انہیں یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں انکے پیاروں کو زیارت واقعے کی طرح ماورائے آئین و قانون جعلی مقابلوں میں تو قتل نہیں کیا جائے گا،
انھوں نے کہاکہ ریاست اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کیلئے روز نیا ڈرامہ رچاتا رہتا ہے مگر وہ جلدی بے نقاب ہوجاتاہے -ان کا اشارہ حالیہ نوراحمد کے نام نہاد پریس کانفرنس پر تھا ۔ جسے خفیہ اداروں کے ایماء پر کیاگیا ۔
انہوں نے کہا کہ زیارت ہرنائی نام نہاد جعلی آپریشن کے نام پر جن جبری لاپتہ افراد کو نشانہ بنایا گیا انکے نعشوں کو بھی مسخ کیا گیا تاکہ انھیں کوئی آسانی سے پہچان نہ پائیں اور اسکے علاوہ نعشوں کی شناخت میں جو طریقہ کار ہوتی ہے انکو بروے کار لانے میں بھی کوئی مدد نہیں کی گئی ۔جس کی وجہ سے بقیہ نعشوں کی شناخت نہ ہونے پر انہیں لاوارث دفنادیا جائے گا ،جو ماضی میں ہوتا آیا ہے -