پنجگور کے علاقے گچک سے حراست بعد جبری طور پر لاپتہ افراد آج رہا کردیئے گئے۔ پنجگور سے چند روز قبل ایف سی نے ایک ہی خاندان کے مرد خواتین و ایک بچے کو حراست میں لیکر ایف سی کیمپ میں زیر حراست رکھا تھا-
مذکورہ خاندان کی فورسز کے ہاتھوں حراست میں لئے جانے کی تصدیق انکے رشتہ داروں نے کی تھی- حراست میں لئے جانے والوں میں ایک ہی خاندان کے دو خواتین ایک بچے سمیت خاندان کے دو مرد شامل تھے، جنہیں رواں سال اپریل میں فورسز نے بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے گچک سے حراست میں لیکر ایف سی کیمپ منتقل کردیا تھا-
ادھر بلوچستان ہائی کورٹ میں حراست میں لئے جانے والے افراد کے خاندان کے وکیل نے ایک پٹیشن دائر کی تھی جو زیر سماعت ہے - تاہم آج تمام افراد بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں-
مذکورہ خاندان کا تعلق ضلع پنجگور کے علاقے گچک سے ہے فورسز کے ہاتھوں حراست میں لئے گئے افراد میں عبدالرحمان، عبدالحق، شاہ بی بی، بی بی شہزادی اور چھ روز کا بچہ شامل تھیں- عبد الرحمان اور عبد الحق کو 26 اپریل 2022 کو لاپتہ کیا گیا جبکہ اگلے روز شاہ بی بی، شہزادی اور ان کے شیرخوار بچے کو لاپتہ کیا گیا حراست میں لئے جانے خاندان کے رشتہ داروں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ تمام پانچوں افراد بے قصور ہیں اور ان کو شیرخوار بچے کے والد مدد بلوچ کی وجہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا-
انکے رشتہ داروں کے مطابق مدد بلوچ کے ایف سی کیمپ میں پیش نہ ہونے پر ایف سی کے اہلکاروں نے ان پانچوں کو حراست میں لیا ہے-
بی بی سی کو انٹریوں میں حراست میں لئے گئے افراد کے ایک رشتہ دار نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک سال پہلے اگست 2021 کو مدد بلوچ اور ان کے والد ہارون بلوچ کو گرفتار کر کے سیکیورٹی فورسز کے کیمپ لے جایا گیا تھا جہاں ان کو تین ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا تین ماہ بعد اس شرط پر رہا کیا گیا تھا کہ ان کی حرکات و سکنات ان کے گھر تک محدود رہیں شادی بیاہ یا غمی کے موقع پر بھی اگر ان کو جانا ہوتا تو بھی ان کو سیکورٹی فورسز کے کیمپ سے جاکر اجازت لینا پڑتا محمد فضل نے دعویٰ کیا اس دوران مدد بلوچ کو مبینہ طور پر بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد دوبارہ ماروائے آئین اور قانون طریقے سے اٹھائے جانے کے خوف کے پیش نظر محنت مزدوری کے لیے بیرون ملک چلا گیا تھا مدد بلوچ کہتے ہیں کہ ان میں مزید تشدد اور ذہنی اذیت سہنے کی سکت نہیں اور اسی کی وجہ سے طلبی کے باوجود وہ واپس نہیں آ رہے ہیں۔‘
مذکورہ خاندان کی فورسز کے زیر حراست کے دؤران بلوچستان ہائی کورٹ میں کیس کی ایک سماعت بھی ہوئی جہاں ان افراد کے رشتہ داروں اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم نے ان کی جبری گمشدگی کا الزام فرنٹیئر کور ساﺅتھ کے اہلکاروں پر عائد کیا گیا تاہم فرنٹئر کور نے ان افراد کی ایف سی کے زیر حراست ہونے کی تردید کردی تھی-
خواتین و بچوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ تنظیموں کے جانب سے بلوچستان سمیت بیرون ممالک احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے تھیں جبکہ گذشتہ ماہ مظاہرین نے گچک سمیت دیگر شہروں سے خواتین کی جبری گمشدگیوں و جعلی کیسز میں گرفتاری کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج کرتے ہوئے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تھا۔ دھرنا مظاہرین کا مؤقف تھا کہ فورسز نے مئی میں بلوچستان کے علاقے ھوشاپ سے نور جان بلوچ اور کراچی سے بلوچی زبان کے شاعرہ حبیبہ پیر جان کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے-
ھوشاپ سے نور جان نامی خاتون کی گرفتاری کی تصدیق کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ نے کی تھی انکا مؤقف تھا کہ سی ٹی ڈی نے خفیہ اطلاع پر کاروائی کرتے ہوئے بی ایل اے کے مجید برگیڈ کے مبینہ خودکش حملہ آور کو ساتھی سمیت گرفتار کرلیا ہے تاہم بعد میں نور جان کو تربت کے عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا تھا اور 19 مئی کو لاپتہ حبیبہ پیر جان بھی بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے تھیں-
کوئٹہ گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے کے دؤران بلوچستان ہائی کورٹ نے خواتین کی گرفتاری و جبری گمشدگی کی درخواست دائر کردی تھی درخواست کی اگلی سماعت جولائی میں ہوگی-